افغانستان سے متعلق علاقائی کانفرنس بلانے کا ایرانی اعلان
10 اگست 2010تہران حکومت کے ایک اہلکار رامین مہمان پرست نے بتایا کہ اس اجلاس کا مقصد افغانستان میں سلامتی کی صورتحال اور اسے مزید مستحکم بنانے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کرنا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اجلاس تہران حکومت کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت منشیات فروشوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ تاہم رامین مہمان پرست نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کانفرنس کب منقعد کرائی جائے گی۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مہمان پرست کا مزید کہنا تھا کہ اگر جنگ سے تباہ حال افغانستان کے پڑوسی اور دیگر ممالک اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہتے ہیں، توانہیں علاقائی سطح پر کئے جانے والے ان اقدامات کی تائید کرنا ہو گی۔ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں جاری بحران کے حل میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ ایران کے لئے افغانستان اور عراق میں پائیدار استحکام کو یقینی بنانا کس قدراہم ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے چھوٹے پیمانے پر ایک کانفرنس کی میزبانی کی تھی، جس میں افغان صدر حامد کرزئی اور تاجک صدر امام علی رحمانوف شریک ہوئے تھے۔ اس موقع پر ایرانی صدر نے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی تعیناتی کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ خطے کے ممالک کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ احمدی نژاد کا مزید کہنا تھا کہ نیٹو اور اس کے اتحادی افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب یہ مسئلہ کوئی اور نہیں بلکہ صرف افغانستان کے پڑوسی ممالک ہی حل کر سکتے ہیں۔
امریکہ اور ایرانی حکومت کے کشیدہ تعلقات کے باوجود کابل اور تہران کے باہمی راوبط بہت مضبوط ہیں۔ تاہم اختلافات کے باوجود امریکہ اور ایران دونوں ہی طالبان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، جو1996ء سے لے کر2001 ء تک افغانستان پرحکومت کر چکے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ نے ایران سمیت خطے کی کئی دوسری ریاستوں کو افغانستان کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں شامل کرنے کی کاوش کی تھی، لیکن واشنگٹن اور تہران کے مابین سفارتی تعلقات نہ ہونے وجہ سے یہ معاملہ کٹھائی میں ہی پڑا رہا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک