افغانستان میں اب اقوام متحدہ کے خواتین عملے پر بھی پابندی
5 اپریل 2023اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا کہ طالبان نے غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر افغان خواتین پر پابندی میں توسیع کرتے ہوئے ملک میں اقوام متحدہ کے مشن کو بھی اس میں شامل کرلیا۔
منگل کے روز طالبان کی جانب سے پابندی کا عندیہ دیے جانے کے بعد اقوام متحدہ نے افغانستان میں اپنے عملے کے تقریباً3300 ارکان کو اگلے 48 گھنٹوں تک کام پر نہیں آنے کے لیے کہا ہے۔
ان میں 400 کے قریب خواتین ملازمین شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ افغانستان میں ان کی خواتین عملے کو "عملاً حکام کی طرف سے ایک حکم" موصول ہوا ہے۔
افغان طالبان سے نمٹنے کے لیے تازہ فکر و خیال کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے عہدیدار کابل میں طالبان حکام سے بدھ کے روز ملاقات کریں گے اور "کچھ وضاحت طلب کریں گے۔"
ایسی پابندی ناقابل قبول ہے، اقوام متحدہ
طالبان نے دسمبر میں تمام غیر ملکی اور ملکی این جی اوزکو اپنی خواتین ملازمین کو کام کرنے سے روک دینے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کو اس اصول سے اب تک مستثنٰی رکھا گیا تھا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ مشن (یو این اے ایم اے) نے منگل کے روز بتایا کہ اس کی خواتین عملے کو ننگرہار صوبے میں کام پر جانے سے روک دیا گیا۔
ترجمان کے مطابق گوٹیرش کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی پابندی "ناقابل قبول اور واضح طورپر ناقابل فہم" ہو گی۔ انہوں نے کہا "اس طرح کے احکامات، جیسا کہ ہم نے آج دیکھا، خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدم امتیاز کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔"
طالبان کو اکیسویں صدی میں لانے میں مدد کریں، اقوام متحدہ
دوجارک نے بتایا کہ اقوام متحدہ اس وقت افغانستان میں تقریباً23 ملین افراد کو انسانی امداد فراہم کر رہا ہے جو ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کا عملہ ملک میں زمینی سطح پر امدادی کارروائیوں، بالخصوص دوسری ضرورت مند خواتین کی شناخت کے لیے بہت اہم ہے۔
گوٹیرش نے ننگر ہار میں پابندی کی بھی مذمت کی اور ٹویٹ کیا کہ یہ پابندی "ضرورت مند لوگوں تک جان بچانے والی امداد پہنچانے کی ہماری صلاحیت کو لامحالہ نقصان پہنچائے گی۔"
طالبان کا یہ اقدام "صنفی سزا" کے مترادف
طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں امریکی قیادت میں بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے بعد دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ تب سے طالبان قیادت نے اسلام کی سخت تشریح مسلط کر رکھی ہے۔
نوعمر لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کا طالبان پر خواتین کے خلاف ’جابرانہ پابندیاں‘ ختم کرنے پر زور
خواتین سرکاری ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا گیا ہے جب کہ تمام خواتین کو کسی محرم مرد کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گھر سے باہر نکلنے کے لیے برقع پہننا ضروری ہے۔ خواتین کو پارکوں یا باغات میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق کے متعلق امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے جنیوا میں ایک حالیہ تقریر میں کہا،"خواتین پر طالبان کے اقدامات "صنفی سزا" کے مترادف ہوسکتے ہیں۔
ج ا/ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)