افغانستان میں شہری ہلاکتیں اور طالبان سے صلح
22 جنوری 2010افغان شہری گزشتہ روز پھر سڑکوں پر نکل کر سراپا احتجاج بن گئے، انہوں نے غم و غصے کا اظہار کیا، کابل حکومت کے خلاف بھی اور افغانستان متعین غیر ملکی فوجی دستوں کے خلاف بھی۔ حالیہ فضائی بمباری کے شکار جنوبی صوبے غزنی کے سینکڑوں مشتعل شہری نیٹو کے دعوے سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے جمعرات کو بمباری کے چاروں ہلاک شدگان کی لاشوں کے ہمراہ دارالحکومت کابل کو ملک کے جنوبی اور مشرقی حصوں سے ملانے والی شاہراہ پر گھنٹوں تک دھرنا دیا۔
نامہ نگاروں سے بات چیت میں غزنی کے علاقے کرا باغ کے باشندوں نے دعویٰ کیا کہ فضائی بمباری میں ایک موبائل فون کمپنی کے مقامی چوکیدار ، اس کے دو بیٹوں اور پڑوس میں رہنے والے ٹیکسی ڈرائیور کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ نیٹو کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسند تھے۔
گزشتہ روز کا یہ احتجاج نہ تو عام شہریوں کی ہلاکت کے خلاف اٹھائی گئی پہلی آواز تھی نا ہی بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا پہلا واقعہ ۔ افغانستان میں نیٹو اورآئی سیف کے فوجی دستوں کی کارروائیوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق محض گزشتہ ایک سال میں دو ہزار چار سو عام افغان شہری مارے جاچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد، سال ٠٠٩ ٢ اس سلسلے کا خونریز ترین سال رہا ہے۔ بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں افغان حکومت کی پذیرائی میں کمی اور شورش زدہ ملک میں متعین ایک لاکھ سے زائد غیر ملکی فوج کے خلاف نفرت میں اضافے کا بہت بڑا سبب تصور کی جاتی ہیں۔
شمالی صوبے قندوز میں گزشتہ برس بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کا ایک ایسا ہی واقعہ نیٹو افواج، بالخصوص قندوز متعین جرمن فوج کے لئے انتہائی بدنامی کا سبب بنا تھا۔ طالبان کی جانب سے اغوا کئے گئے آئل ٹینکرز پر جرمن فوج کے ایک عہدیدار نے فضائی بمباری کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر درجنوں عام شہریوں اور عسکریت پسندوں کے بشمول سو سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں۔ جرمن دارالحکومت برلن میں قندوز حملے کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے۔ واقعے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرکے مستعفیٰ ہوجانے والے جرمن فوج کے سربراہ جنرل وولف گانگ شنائیڈر ہائین کی جگہ جنرل فولکر ویکر کو نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔
افغان مشن کی نزاکت، پیچیدگی اور اہمیت کے پیش نظر افغانستان متعین غیر ملکی فورسز کے سربراہ جنرل سٹین لے مک کرسٹل نے فضائی بمباری کے لئے نئے ضوابط تیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ نیٹو کے ایک ترجمان ریئر ایڈمرل جیورجی اسمتھ کے مطابق نئے ضوابط جلد جاری کردئے جائیں گے جس میں رات کے دوران فضائی بمباری کے معاملات پر نظر ثانی کی گئی ہے۔
صورتحال میں بہتری کے لئے افغان حکومت، طالبان عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کے ایک منصوبے پر بھی کام کررہی ہے۔ صدر حامد کرزئی کے بقول ایسے عسکریت پسندوں کو قومی اداروں میں ملازمتیں بھی دی جائیں گی جو مسلح مزاحمت ترک کرکے افغان دستور کے مطابق زندگی گزارنے پر تیار ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کرزئی نے کہا کہ اس پالیسی کو رشوت کی پالیسی کا نام دینا درست نہیں کیوں کہ ہر ایک کو پر امن طریقے سے روزگار کے حصول کا برابر حق حاصل ہے۔
دریں اثناء افغان نیشنل آرمی کو مؤثر اور پولیس کے نظام کو یقینی بنانے کے لئے بھی کوششیں زوروں پر ہیں تاکہ سلامتی کی ذمہ داری نیٹو اور آئی سیف فورسز کے کاندھوں سے اتار کر افغان حکومت کے سپرد کی جاسکیں۔ برسلز میں نیٹو کے ترجمان جیمز اپاتھروئے کے بقول افغان آرمی کے اہلکاروں کی تعداد موجودہ ایک لاکھ تیس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ اکہتر ہزار کرنے پر فریقین متفق ہوچکے ہیں۔
طالبان عسکریت پسندوں، افغان سیکیورٹی اہلکاروں اور غیر ملکی فوج کے بیچ جھڑپوں کا نشانہ بننے والے عام افغان شہریوں کی اُمید بھری نظریں اب لندن کانفرنس پر جمی ہیں کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں کیا کوئی تبدیلی آسکے گی۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : کشور مصطیٰ