افغانستان میں شیلنگ نہیں کی، پاکستانی فوج
28 جون 2011حکومت پاکستان کی جانب سے کابل حکومت کے الزام کی تردید کر دی گئی ہے۔ افغانستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پیر کے روز کم از کم 470 راکٹ پاکستانی سرحد سے افغانستان میں فائر کیے گئے۔ پاکستان کی جانب سے تردیدی بیان میں یہ ضرور کہا گیا کہ اس کا امکان ہے کہ کچھ فرینڈلی فائر افغان علاقے میں جا گرے ہوں۔ یہ بیان پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ فوجی ترجمان کے مطابق دانستہ طور پر ایک بھی راکٹ افغان علاقے پر فائر نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے بھی افغانستان پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ قبائلی پٹی کے سرگرم جنگجوؤں کو افغان علاقے میں پناہ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مناسبت سے مشرقی صوبے کنڑ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ پیر کے روز افغان حکومت نے 470 راکٹوں کے داغے جانے کی شدید انداز میں مذمت کی۔ افغان حکام کے مطابق یہ راکٹ کنڑ اور ننگر ہار صوبوں کے سرحدی مقامات پر فائر کیے گئے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اس فائرنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کرزئی کے ترجمان کے مطابق کابل حکومت کی تشویش سے پاکستانی سفیر کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
پاک افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ منگل کے روز دونوں ہمسایہ ملکوں کی امریکہ کے ساتھ جو میٹنگ شیڈیول ہے، اس میں موجودہ سرحدی صورت حال کو یقینی طور پر فوقیت حاصل رہے گی۔
امریکی صدر کے پاکستان اور افغانستان کے لیے مقرر خصوصی ایلچی مارک گروسمین دونوں ملکوں کے حکام کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں بظاہر صدر اوباما کے گزشتہ ہفتہ کے دوران ہونے والے اعلان کی روشنی میں انتہاپسند طالبان کے ساتھ مصالحتی عمل کو آگے بڑھانا چاہیں گے۔
پیر کے روز کابل میں پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے اعلیٰ فوجی افسروں کی ملاقات بھی ہوئی۔ پاکستان کی جانب سے جنرل اشفاق پرویز کیانی، افغانستان سے جنرل شیر محمد کریمی اور امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے خطے کی صورتحال پر بات چیت کی۔ اس میٹنگ کی تصدیق پاک فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کی گئی ہے۔ فوج کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بہتر رابطہ کاری اور تعاون میں فروغ کے ساتھ ساتھ غلط فہمیوں سے بچنے کو بھی میٹنگ میں زیر بحث لایا گیا۔ اسی میٹنگ میں دونوں ہمسایہ ملکوں کی سرحدی سکیورٹی پر بھی بات کی گئی۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ