’افغانستان میں طالبان تنازعے کا حل، سیاسی مفاہمت سے ہی ممکن‘
12 جولائی 2018بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں واقع نیٹو کے نئے ہیڈ کوارٹرز میں سربراہی اجلاس کے دوسرے اور آخری روز آج 12 جولائی کو افغانستان میں امن و امان کی صورتحال مرکزی موضوع رہی۔ مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد ’نیٹو‘ کے 29 رکن ممالک افغانستان میں ’ریزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے ذریعے جاری مالی معاونت میں 2024ء تک توسیع کی منظوری دے دی ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام کے سلسلے میں نیٹو کے اتحادی ممالک کی جانب سے افغان فورسز کو تقریباﹰ سالانہ ایک ارب امریکی ڈالرز کی امداد دی جاتی ہے۔
نیٹو سربراہی اجلاس کے آخری روز سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ نیٹو کے اتحادی ممالک افغان سکیورٹی فورسز کی مالی امداد کو جاری رکھنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا، ’’تقریباﹰ سالانہ ایک ارب ڈالر کی معاونت میں توسیع افغان سکیورٹی فورسز اور افغان فضائیہ کے لیے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوگی۔‘‘
برسلز میں موجود افغان صحافی عبداللہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے خلاف جنگ کے لیے افغان فورسز کو مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ نیٹو کی جانب سے مالی امداد کی توسیع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نیٹو مشن کی موجودگی کا فیصلہ ملک کی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کیا جاتا ہے، جو کہ یقینی طور پر افغان فورسز کی تربیت اور مالی امداد کو جاری رکھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اشٹولٹن برگ نے افغانستان میں امن و استحکام کے سلسلے میں صدر اشرف غنی کے منصوبے کو سراہتے ہوئے کہا، ’’افغانستان میں طالبان تنازعے کا سیاسی حل قومی مفاہمت ہی سے ممکن ہے۔‘‘
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت نیٹو کے رکن ممالک کے سربراہان کا افغانستان میں مالی امداد جاری رکھنے کے فیصلے کا شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران ایک مباحثہ میں شرکت کے دوران صدر غنی نے خطے کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بھارت، چین اور ایران سے تعلقات میں پیش رفت کو مثبت قرار دیا۔ تاہم صدر غنی نے افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اسلام آباد کے ساتھ کاغذی سطح پر تعلقات تو اچھے ہیں مگر ہم امید کرتے ہیں کہ اسلام آباد بہت جلد افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عملی کردار ادا کرے گا۔‘‘