افغانستان میں فریقین فوراً جنگ بندی کریں،امن کانفرنس کی اپیل
19 مارچ 2021روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ بیان میں روس، امریکا، چین اور پاکستان نے افغان فریقین سے جنگ بندی پر فوری مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں امن کے لیے اہم نکات پر بات چیت کا آغاز کیا جائے جبکہ افغان فریقین اختلافات اور افغانستان میں تشدد میں کمی کے لیے مل کر کام کریں تاکہ سیاسی اور سفارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول بنایا جاسکے۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اسلامی امارات کی حمایت نہیں کی جائے گی۔
ماسکو میں جمعرات کے روز ہونے والی اس کانفرنس میں کئی اہم افغان رہنما شریک ہوئے، جن میں افغانستان کی سپریم قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ، سابق صدر حامد کرزئی، مارشل عبدالرشید دوستم اور ملاعبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کے دس سینئر نمائندے شامل تھے۔
کانفرنس کے آغاز پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے طالبان اور امریکہ درمیان مذاکرات کے حوالے سے کہا”ہم دونوں فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں حمایت حاصل ہے۔“ انہوں نے کہا کہ 'ہمیں افسوس ہے کہ دوحہ میں شروع ہونے والے سیاسی عمل کے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ماسکو کی گفتگو سے ایسا ماحول بنانے میں مدد ملے گی جس سے بین الافغان مذاکرات کو فروغ ملے گا۔"
’ہم نے وعدہ پورا کیا‘
طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کا کہنا تھا’’معاہدہ فریقین کی ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اسلامی امارات نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں اور ہم دیگر فریقین سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں۔“
طالبان رہنما نے مزید کہا کہ’’مستبقل کا اسلامی نظام بین الااقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ بین الااقوامی برادری، افغانستان کے عوام اور اس کے ہمسایہ ممالک سب کو فائدہ ہو سکے۔ ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔“
ماسکو میں امن مذاکرات کا انعقاد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکرات کے تعطل کا شکار ہو جانے کے بعد کیا گیا تھا۔ اسی طرح کی ایک اور امن کانفرنس اپریل میں ترکی میں منعقد ہونے والی ہے۔
کیا عبوری حکومت ممکن ہے؟
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے معاہدے کے تحت آیا یکم مئی سے تمام امریکی فوجیوں کا انخلاء ممکن ہے؟ جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ ایسا ممکن تو ہے لیکن فی الحال مشکل ہے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ماسکو کانفرنس کے دورا ن امید ظاہر کی کہ افغان نہ صرف جنگ بندی سمیت ایک سیاسی مفاہمت پر بلکہ عبوری حکومت کے قیام پر بھی رضامند ہوجائیں گے۔
روس بھی افغانستان میں ایک عبوری حکومت کی تجویز کی حمایت کر رہا ہے جس میں طالبان کے اراکین بھی شامل ہوں گے۔ یہ عبوری حکومت افغانستان میں انتخابات اور نئی آئین نافذ ہونے تک قائم رہے گی۔
افغان صدر اشرف غنی نے تاہم عبوری حکومت کی تجویز مسترد کردی ہے۔ طالبان نے بھی اس تجویز پر ابھی کوئی واضح موقف ظاہر نہیں کیا ہے۔ ملاعبدالغنی برادر نے ماسکو کانفرنس کے شرکا ء سے کہا”افغانوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔“
تشدد کا سلسلہ جاری
ماسکو میں افغان امن کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت ہوا جب افغانستان میں امن و سلامتی کی صورت حال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔
جمعرات کے روز ہی سڑک کے کنارے ایک بم دھماکا ہوا، جس سے ایک بس میں سوار حکومت کے چار ملازمین ہلاک ہوگئے۔ اس سے ایک دن قبل ایک ہیلی کاپٹر پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں افغان سکیورٹی فورسز کے نو اہلکار مارے گئے تھے۔
جمعرات کے روز ہونے والے حملے کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم افغان حکومت اس طرح کے حملوں کے لیے طالبان کو مورد الزام ہی ٹھہراتی رہی ہے۔
ج ا / ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)