افغانستان میں فضائی حملے: امریکی غلطیوں کا اعتراف
3 جون 2009رپورٹ کے مطابق امریکی فضائی حملوں کے باعث افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف عام شہریوں بلکہ افغان حکومتی اہلکاروں میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ اور دیگر مغربی ممالک کےاعلیٰ حکام میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہےکہ طالبان کے بڑھتے ہوئے پروپیگینڈے سے کیسے نبٹا جائے کیونکہ ان کے مطابق طالبان افغان رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لئے پروپیگینڈے کے طور پر بہت سی غلط معلومات بھی پھیلا رہے ہیں۔
مئی کے مہینے میں بالا بلوک میں امریکی فضائی کارروائی کے مختلف واقعات میں افغان حکومت کے مطابق شہری ہلاکتوں کی کل تعداد 140 تھی۔ ان واقعات کے بعد افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی افواج سے ہوائی حملے روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسی بارے میں امریکی افواج کی ایک تحقیقاتی ٹیم نےاعتراف کیا ہے کہ 60 سے لے کر 65 تک باغیوں پر کئے جانے والے ان حملوں میں بیس اور تیس کے درمیان عام شہری بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی اعلیٰ ترین تنظیم کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 97 ہے اور ان میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔
نیو یارک ٹائمزکے مطابق ایک امریکی فوجی اہلکار کا کہنا ہے کہ شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لئے امریکی ہوائی اور بری افواج کو اپنی کارروائی کے حوالے سے طے شدہ اصولوں پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے نامزد سربراہ لیفٹیننٹ جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے حملوں اور شہری ہلاکتوں میں اضافے کے باعث نقادوں کوتنقید کا ایک نیا موقع مل جائے گا۔ ان نقادوں کے مطابق افغانستان میں امریکی افواج اکثر فضائی مدد طلب کرتے ہوئے اپنے فیصلے قدرے بلاامتیاز کرتی ہیں۔
اس سسلے میں کابل میں ایک امریکی فوجی ترجمان نے کہا کہ B-1 لڑاکا طیارے سے لی جانے والی ویڈیو سے صاف نظر آتا ہے کہ طیارے سے کئے جانے والے حملوں کا نشانہ طالبان جنگجو ہی تھے۔
ایک اور امریکی فوجی افسر Christine Sidensticker نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج افغانستان میں لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے تعینات کی گئی ہیں اس لیے "ان کے کمانڈرز وہی کرتے ہیں جو وہ بہتر سمجھتے ہیں۔"
دوسری طرف طالبان نے مئی میں اس جھڑپ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان فضائی حملوں کے ہلاک شدگان میں 166 میں سے 144 عام شہری تھے۔