افغانستان میں قیام امن کی حمایت بہت زیادہ ہے، گروسمین
23 جنوری 2012کابل سے موصولہ رپورٹوں میں خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ گروسمین نے اپنا یہ بیان جس دورے کے دوران دیا ہے، وہ ایسے وقت پر کیا گیا جب طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا جا چکا ہے کہ وہ قطر میں اپنا ایک سیاسی دفتر کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
طالبان کی قیادت میں یہ سیاسی دفتر ان ممکنہ مذاکرات سے پہلے کھولنے کی خواہش پائی جاتی ہے، جن کے نتیجے میں امریکہ افغانستان میں دس سال سے جاری جنگ کے عملی خاتمے تک پہنچنا چاہتا ہے۔
امریکی مندوب مارک گروسمین کے دورہ افغانستان کے دوران ایک امریکی اہلکار نے کابل میں بتایا کہ اگر صدر حامد کرزئی آمادہ ہوں تو طالبان کے ساتھ یہ امن بات چیت چند ہفتوں میں شروع ہو سکتی ہے۔
مارک گروسمین نے اتوار کے روز کابل میں افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لودین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس بارے میں کوششیں کی گئی ہیں کہ مذاکرات کے لیے قطر میں طالبان کا ایک دفتر قائم ہو سکے۔
اس موقع پر جاوید لودین نے صحافیوں کے بتایا کہ کابل حکومت اس بات کی حامی ہے کہ قطر میں طالبان کا ایک دفتر کھولا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں جلد ہی قطر کا ایک سرکاری وفد افغانستان کا دورہ کرے گا۔
اس موقع پر گروسمین نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے ہمیں افغان طالبان کی طرف سے ایک واضح بیان کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں تشدد کا راستہ ترک کرنا ہو گا اور القاعدہ کے ساتھ اپنے رابطے بھی ختم کرنا ہوں گے۔‘
اسی سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی مندوب نے واضح طور پر یہ بھی کہا کہ واشنگٹن حکومت کی طرف سے ابھی تک اس ممکنہ بات چیت کے آغاز سے پہلے طالبان کی طرف سے کیے گئے مطالبے پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
افغان طالبان کا مطالبہ ہے کہ ایسی کسی بھی امن بات چیت سے پہلے امریکہ کو اس گروپ کے وہ شدت پسند ارکان رہا کرنے چاہیئں جوکیوبا میں خلیج گوانتانامو کے حراستی کیمپ میں امریکی فوج کی تحویل میں ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مارک گروسمین کو ان کے موجودہ دورے پر اس لیے افغانستان بھیجا تھا کہ وہ صدر حامد کرزئی کے ساتھ قطر میں طالبان کا دفتر کھولے جانے کے حوالے سے اب تک پیش رفت پر تفصیلی بات چیت کر سکیں۔
افغان صدر کرزئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ خلیجی عرب ریاست قطر میں ہونے والی بات چیت کی صورت میں وہ ایسی امن مذاکراتی کوششوں کے مرکزی دھارے سے دور ہو جائیں گے۔
اس پس منظر میں امریکہ کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ کوئی بھی بات چیت صرف کابل حکومت کی مکمل رضامندی سے ہی عمل میں آ سکتی ہے، جسے منطقی طور پر اس امن عمل کی قیادت بھی کرنی چاہیے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شامل شمس