افغانستان میں لویہ جرگہ کے انعقاد کی منصوبہ بندی
26 اکتوبر 2011کابل سے موصولہ رپورٹوں میں افغان حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ایک بڑا قومی اجتماع قرار دی جانے والی اس اسمبلی میں کابل کی واشنگٹن کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے علاوہ طالبان باغیوں کے ساتھ قیام امن کے لیے مذاکراتی کوششوں پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ اجتماع سولہ نومبر کو منعقد ہو گا جس میں پورے ملک سے ایک ہزار کے قریب قبائلی رہنما، سیاستدان، سول سوسائٹی کے سرکردہ نمائندے اور اہم سماجی کارکن حصہ لیں گے۔
کابل میں صدارتی محل کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روایتی طور پر لویہ جرگہ کہلانے والے اس قومی اجتماع کا انعقاد افغان آئین کے تقاضوں کے مطابق ہو گا۔ افغان آئین کے مطابق لویہ جرگہ اس وقت منعقد کیا جاتا ہے جب فوری نوعیت کے انتہائی اہم معاملات میں بلاتاخیر فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے فوجی دستوں کی جنگی کارروائیوں کا اختتام طے شدہ بات ہے۔ کابل حکومت اس وقت امریکہ کے ساتھ اس سلسلے میں بات چیت میں مصروف ہے کہ سن 2014 کے بعد کابل اور واشنگٹن کے درمیان تعاون کی نوعیت کیا ہو گی۔
کابل میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان کے بقول اس بات چیت میں خاص طور پر امریکہ کے ساتھ مستقبل کے فوجی تعاون، ترقیاتی شعبے میں پارٹنر شپ اور آئندہ دی جانے والی امدادی رقوم سے متعلق مکالمت ہو رہی ہے۔
امریکہ اور افغانستان کے باہمی تعلقات کے حوالے سے افغان صدر حامد کرزئی کا اس سال فروری میں دیا جانے والا ایک بیان کافی متنازعہ ہو گیا تھا۔ تب حامد کرزئی نے کہا تھا کہ امریکہ علاقے میں القاعدہ اور طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لیے افغانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن بعد میں حامد کرزئی کے قریبی حلقوں اور امریکی حکام نے اس بیان کی وضاحت میں یہ کہا تھا کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ طویل مدت کے لیے فوجی تعاون کا خواہش مند ہے، جو قریب 25 سال تک جاری رہ سکتا ہے
افغان دارالحکومت میں گزشتہ پیر کے روز بہت سے سیاسی کارکنوں کی طرف سے اس امکان کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا تھا کہ کابل حکومت واشنگٹن کے ساتھ ملک میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام سے متعلق کوئی معاہدہ طے کر سکتی ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق نومبر کے وسط میں افغانستان میں جو لویہ جرگہ منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اس میں طالبان باغیوں کے ساتھ قیام امن کے سلسلے میں جاری مذاکرات، ان کی رفتار اور اب تک کے نتائج پر تفصیلی مشورے بھی کیے جائیں گے۔
افغانستان میں طالبان کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ جب تک ملک میں غیر ملکی فوجی دستے موجود رہیں گے، کابل حکومت کے ساتھ امن بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجی دستوں کی موجودہ تعداد ایک لاکھ 30 ہزار کے قریب ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک