افغانستان میں نئی حکمت عملی اپنائی جائے، امریکی سینیٹرز
5 جولائی 2017ان مککین کی قیادت میں امریکی سینیٹرز کا یہ وفد پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرنےکے بعد منگل چار جولائی کو کابل پہنچا۔ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان جنگ کے بارے میں مستقبل کی حکمت عملی پر مبنی ایک نظرثانی شدہ خط جاری ہونے میں قریب ایک ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ افغانستان میں جاری امریکی جنگ 16ویں برس میں داخل ہو چکی ہے اور خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں یہ موضوع یکسر غائب رہا۔
سابق ریپبلکن صدارتی امیدوار اور امریکی سینیٹ میں آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان مکین نے اسلام آباد میں کہا تھا کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان یا خطے میں قیام امن کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب پاکستان کا کردار زیادہ اہم ہو چکا ہے۔
کابل میں نیٹو اتحاد کے ہیڈکوارٹرز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان مکین کا کہنا تھا، ’’ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم یہاں افغانستان میں جنگ جیتنے کی راہ پر ہیں۔‘‘ اپنی ری پبلکن پارٹی میں ٹرمپ کے شدید ناقد میککین کا مزید کہنا تھا، ’’اور اسے تبدیل ہونا چاہیے اور جلد‘‘۔
جان مککین کے علاوہ امریکی سینیٹرز لِنڈسی گراہم، ایلزبیتھ وارین، شیلڈن وائٹ ہاؤس اور ڈیوڈ پیڈرو بھی اس علاقائی دورے پر ان کے ساتھ ہیں۔ میساچیوسٹس سے ڈیموکریٹک سینیٹر ایلزبیتھ وارین کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان اس لیے گئی ہیں تاکہ وہ اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ افغانستان کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ خاتون سینیٹر کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں امریکا میں ایک ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو افغانستان میں ہمارے کردار کا تعین کرے، ہمارے مقاصد متعین کرے اور اس بات کی وضاحت کرے کہ ہم یہاں سے وہاں تک کیسے پہنچیں گے۔‘‘
امریکی حکام نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس جولائی کے وسط میں ٹرمپ کو افغانستان میں مستقبل کے لیے ممکنہ حکمت عملی کی ایک فہرست پیش کریں گے۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ نے جیمز میٹس کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کا تعین کر سکتے ہیں تاہم بطور کمانڈر اِن چیف ٹرمپ کو اس جنگ کے بارے میں مجموعی حکمت عملی پر دستخط کرنا لازمی ہوں گے۔