افغانستان میں نیٹو مشن کا مستقبل اور امن مذاکرات
14 مارچ 2019مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں نیٹو مشن کے مستقبل کا دار و مدار امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجے پر ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو کے فوجیوں کی تعداد میں کمی یا موجودہ سطح کو برقرار رکھنے کے فیصلے کا انحصار بھی اسی مذاکراتی عمل پر ہو گا اور اس حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
اسی تناظر میں نیٹو کے فوجی ذرائع نے بھی افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان اور امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے درمیان امن مذاکرات کا ایک طویل دور رواں ہفتے کے دوران مکمل ہوا۔ زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کے اختتام پر اس مکالمتی دور کو مثبت قرار دیا تھا۔
مغربی دفاعی اتحاد افغانستان میں شروع کی جانے والی امریکی جنگ میں سن 2003 میں شامل ہوا تھا۔ عسکری ماہرین نے اس شمولیت کو نیٹو کی ایک بڑی مہم جوئی قرار دیا تھا۔ سن 2015 میں جنگی کارروائیوں کے سلسلے کو ختم کر دیا گیا تھا اور اُس کی جگہ پر افغان فوج اور سکیورٹی سے جڑے دیگر اہلکاروں کی تربیت کے پروگرام کو شروع کیا گیا تھا۔ یہ مشن اب بھی جاری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی فوج کی موجودگی اور نیٹو کے تربیتی مشن کے باوجود افغانستان کا مسلح تنازعہ بدستور موجود ہے۔
اسی دوران افغانستان کے سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ ملکی فضائیہ کی ایک کارروائی میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے اکتیس مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ یہ فضائی حملے صوبہ غزنی میں قائم شدت پسندوں کے ٹھکانے پر کیے گئے۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق جس وقت یہ کارروائی کی گئی، اس وقت ان عسکریت پسندوں کا ایک سہولت کار انہیں کسی اور جگہ پر لے جانے کی کوشش میں تھا۔
غزنی کے گورنر کے ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کا تعلق غالباﹰ طالبان کے حامی حقانی نیٹ ورک سے تھا۔ اُدھر افغان حکام نے ایک فوجی بیس پر امریکی میزائل لگنے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ میزائل جس فوجی بیس پر جا گرا تھا، وہ اُرُوزگان کے مقام ترین کوٹ میں واقع ہے۔ افغان وزارت دفاع نے میزائل لگنے کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں بھی کوئی وضاحت نہیں کی۔