افغانستان میں پُر تشدد واقعات، 18 ہلاک
13 نومبر 2010ہفتے کو علی الصبح افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد کے قریب طالبان حملہ آوروں کے ایک گروپ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک اڈے اور اُ س سے متصلہ ہوائی اڈے پر حملہ کیا۔ اِس حملے کے فوراً بعد دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا، جو دو گھنٹے تک جاری رہا۔ موقع پر موجود افغان نیشنل آرمی کے کمانڈر سارجنٹ عبد اللہ ہمدرد نے بتایا کہ اِس دوران فضا میں موجود نیٹو کے ہیلی کاپٹروں سے بھی حملہ آوروں پر فائرنگ کی جاتی رہی۔
ننگر ہار کی صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے اِس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آٹھ حملہ آور ہلاک کر دئے گئے، جن میں وہ دو حملہ آور بھی شامل ہیں، جنہوں نے خود کُش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اُس نے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنیں اور ایئر پورٹ سے دھواں اٹھتے دیکھا۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران اِن مقامات پر کئے جانے والے اپنی نوعیت کے اِس دوسرے حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بتایا کہ اِس حملے میں 14 خود کُش بمبار شریک ہوئے اور یہ کہ 30 غیر ملکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ طالبان عام طور پر اپنی ہلاکتوں کی تعداد کم بتاتے ہیں اور اپنے حملوں کی تفصیلات میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔
اُدھر شمالی افغانستان کے صوبے قُندوز کے ضلع امام صاحب میں ایک موٹر سائیکل میں چھپے بم کے پھٹنے سے تین بچوں سمیت کم از کم 10 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ غالباً مقامی ملیشیا کا ایک لیڈر اِس حملے کا ہدف تھا، جو مارا بھی گیا۔ ابھی اِس حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم حکام طالبان ہی کو اِس کے لئے قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔
جمعہ 12 نومبر کو دارالحکومت کابل کے نواح میں افغان اور بین الاقوامی محافظ دَستے ISAF کے ایک قافلے کو ایک خود کُش کار بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ تین ماہ میں دارالحکومت میں ہونے والے اِس پہلے حملے میں دو فوجی زخمی ہو گئے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہونے والے یہ تین حملے پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں اگلے ہفتے مجوزہ نیٹو سربراہ کانفرنس کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ نیٹو کی طرف سے باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں کامیابی کے تمام تر دعووں کے باوجود طالبان ابھی کمزور نہیں ہوئے ہیں اور افغانستان میں امن و امان کے مسئلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
طالبان کی طرف سے حملوں میں شدت سے نیٹو کے یورپی رکن ممالک پر، جہاں رائے عامہ کی جانب سے افغانستان جنگ کے لئے حمایت بتدریج کمزور پڑتی جا رہی ہے، دباؤ میں اور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگلے مہینے امریکی صدر باراک اوباما بھی افغانستان جنگ میں اپنی حکومت کی اب تک کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے والے ہیں۔
کابل میں قائم ایک تھنک ٹینک AAAC کے ڈائریکٹر غلام جیلانی زواک کا کہنا ہے کہ ’طالبان ایک طرف تو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکہ گزرے 9 برسوں میں فوجی اعتبار سے اُنہیں شکست نہیں دے سکا ہے۔ دوسری طرف وہ خود کو ایک قابلِ قبول سیاسی قوت کے طور پر بھی متعارف کروانا چاہتے ہیں‘۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف