افغانستان: ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور طالبان آمنے سامنے
10 جون 2015افغان پارلیمان کے قومی سلامتی کمیشن کے نائب سربراہ عبدالحئی اخونزادہ کے مطابق، ’’مقامی رہائشیوں اور سکیورٹی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں نے ننگرہار میں دس تا پندرہ طالبان جنگجو ہلاک کر دیے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں متعدد دیگر مقامات پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے یہ دونوں شدت پسند گروہ ایک دوسرے سے بہ دست و گریباں ہیں۔
’’طالبان افغانستان میں ایک طویل عرصے سے لڑ رہے ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کی سرگرمیوں میں اضافے سے انہیں اپنی پوزیشن کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ وہ آسانی سے ہار ماننے والے نہیں۔‘‘
افغان میڈیا کے مطابق تین جون کو اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے طالبان کے قافلے پر حملہ کیا اور متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا، بعد میں ان یرغمالیوں کے سر قلم کر دیے گئے۔
اسلامک اسٹیٹ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے ٹوٹ کر الگ ہونے والا ایک گروہ ہے اور اب شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔ یہ شدت پسند گروہ، جو اپنی بربریت اور اپنی ہی تشریحات اور توجیحات پر مبنی سخت ترین شرعی قوانین کے نفاذ میں مصروف ہے، اب اپنا اثر و رسوخ افغانستان اور وسطی ایشیا میں بھی پھیلا رہا ہے۔
رواں برس کے آغاز سے افغان حکام اور پولیس اہلکار کئی مرتبہ اسلامک اسٹیٹ کی ملک کے مختلف علاقوں میں موجودگی کے خلاف خبردار کرتے آئے ہیں۔
اپریل میں ایک خودکش بم حملہ آور نے مشرقی افغان شہر جلال آباد میں دھماکا کر کے 35 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی تھی اور بعد میں افغان صدر اشرف غنی نے بھی کہا تھا کہ اس حملے میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند ملوث تھے۔
فرح صوبے کی صوبائی کونسل کے سربراہ فرید بختاور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’اسلامک اسٹیٹ نے افغانستان میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے۔‘‘
بختاور کے مطابق یہ شدت پسند گروہ نئے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ سابق طالبان کو بھی بھرتی کر رہا ہے۔
بڑھتی دشمنی
اگرچہ چند طالبان رہنما اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو چکے ہیں، تاہم بطور تنظیم طالبان مشرق وسطیٰ کے اس شدت پسند گروہ کو ’ناجائز‘ قرار دیتے ہیں۔ طالبان نے اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ اتحاد سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ طالبان کا سربراہ ملا عمر اور اسلامک اسٹیٹ کا رہنما ابوبکر بغدادی، دونوں خود کو مسلم دنیا کے نام نہاد ’خلیفے‘ قرار دیتے ہیں۔
جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا کے شعبے کے محقق زیگفریڈ وولف کے مطابق، ’’ان دونوں شدت پسند گروہوں کے درمیان لڑائی پاکستان اور افغانستان کے لیے تباہ کن نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔‘‘
وولف نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں مزید کہا، ’’حقیقی تجزیہ یہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے ٹھوس اغراض و مقاصد یہ واضح کر رہے ہیں کہ یہ گروہ بہت جلد جنوبی ایشیا میں داخل ہو جائے گا۔ افغانستان اور پاکستان کی عالمگیر جہاد کے حوالے سے جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کا مقصد یہی ہو گا کہ جنوبی ایشیا کے ان دونوں اہم ممالک میں اپنے پیر جمائے۔‘‘