افغان اسکول، جو بچوں کو ’نہ‘ کہنا سکھاتا ہے
16 جولائی 2013ایک افغان نژاد امریکی خاتون نے یہ اسکول قائم کیا تھا اور گزشتہ برس امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اس خاتون کو ’ٹاپ ٹین ہیروز‘ میں شامل کیا تھا۔ اس اسکول میں لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ والدین کی جانب سے کہی جانے والی ایسے تمام باتوں کو ماننے سے انکار کریں، جن سے ان کے حقوق پر ضرب پڑتی ہو۔
کابل سے صرف چالیس منٹ کی مسافت پر واقع اس گاؤں میں غربت ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس پہاڑی علاقے میں ریت اڑتی دکھائی دیتی ہے اور لوگ مٹی کے بنے گھروں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لڑکیوں اور خواتین کو برقعے پہننے پڑتے ہیں تاہم ایک بار اس زیبولی ایجوکیشن سینٹر کے دروازے سے اندر داخل ہو جانے کے بعد وہ برقعے ایک طرف لٹکا کر پڑھائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس اسکول کی بنیاد رضیہ جان نے 2008ء میں رکھی تھی، وہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کے بقول میں ملک تبدیلی اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کا خواندہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ’میرے ہاں 400 لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ ہم نے ان لڑکیوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا سکھایا ہے۔ تاکہ اگر ان کی زندگیوں میں کچھ ایسا ہو، جو یہ نہیں چاہتی، تو یہ لڑ سکیں اور ان میں اتنی ہمت ہو کہ یہ نہ کہہ سکیں۔‘
اس اسکول کی بنیاد رکھنے کے لیے رضیہ جان نے پرائیویٹ ڈونرز سے امداد حاصل کی تھی۔ اس اسکول میں لڑکیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ ’لڑکیاں جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوں گی، ان کے لیے اتنے ہی زیادہ دروازے کھلے ہوں گے۔‘
سن 2001ء میں طالبان کے دوراقتدار کے خاتمے کے بعد افغانستان میں اسکول جانے والی لڑکیوں کے تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسے افغانستان میں مغربی افواج کی مداخلت کے بعد کی سب سے بڑی کامیابی بھی قرار دیا جاتا ہے۔
سن 1996ء تا 2001ء طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ افغان وزارت تعلیم کے مطابق اس وقت افغان اسکولوں میں موجود طلبہ کا تقریبا 42 فیصد لڑکیوں پر مشتمل ہے۔