افغان جنگ میں اہداف کا حصول 2015 تک، برطانوی وزیر
12 ستمبر 2010لیئم فوکس نے کہا کہ لندن کوآئندہ دنیا میں کسی بھی دوسری جگہ پر ایسے ہی فرائض کی انجام دہی کے لئے لازمی طور پر تیار رہنا ہوگا۔لندن میں قائم عسکری علوم کے بین الاقوامی ادارے IISS کے زیر اہتمام ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے Liam Fox نے کہا کہ افغانستان میں برطانوی فوجی دستے امریکی سربراہی میں ایک عسکری اتحاد کی صورت میں اپنے سکیورٹی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان اہداف کا تسلی بخش حد تک حصول بظاہر 2015 سے قبل ممکن نہیں ہو گا۔ لیئم فوکس کے مطابق اگر افغانستان سے برطانوی فوجی دستے 2015 سے قبل نکال لئے گئے، تو یہ بات یقینی ہے کہ دنیا میں تقریباً ہر جگہ عسکریت پسند قوتوں کو تقویت ملے گی۔
لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز کے جنیوا میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک سینیئر فوجی افسران اور عسکری پالیسی سازوں سے خطاب کرتے ہوئے لیئم فوکس نے کہا کہ برطانوی دفاعی منصوبہ ساز لندن حکومت کی عسکری ترجیحات کا بدلتے ہوئے حالات کے تحت دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں۔
Liam Fox کے بقول ان پالیسی سازوں کو لازمی طور پر ان امکانات کو بھی مدنظر رکھنا پڑ رہا ہے کہ مستقبل میں برطانوی فوجی دستوں کو دنیا میں کہیں اور دہشت گردی کے خلاف نئے سرے سے مداخلت کرنا پڑ سکتی ہے۔
برطانوی وزیر دفاع نے اس اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ طویل المدتی ہو گی اور وہ مختلف علاقوں میں قومی سرحدوں سے بالا تر ہو کر لڑی جائے گی۔ ایسی صورت میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو لمبے عرصے کے لئے مختلف خطوں میں کارروائیوں کے لئے تیار رہنا ہو گا۔
لیئم فوکس نے کہا کہ جدید دورکی عسکری تاریخ سے سیکھا جانے والا ایک اہم سبق یہ ہے کہ کسی بھی علاقے میں جنگی دستے تب تک تعینات نہ کئے جائیں، جب تک کہ متعلقہ فیصلہ ساز انہیں وہ وسائل اور ساز و سامان بھی مہیا نہ کر سکیں، جن کی ایسے دستوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
جنیوا منعقدہ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر نے کہا: ’’آج دنیا میں فوجی مداخلت کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جو ملک جنگوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، انہوں نے یہ جنگیں خود اپنے لئے منتخب نہیں کی ہوتیں۔‘‘
لیئم فوکس نے کہا، ’’ماضی میں کسی نے بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ امریکہ افغانستان میں فوجی مداخلت کرے گا، لیکن 2001 میں امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں کے چند گھنٹوں نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا۔‘‘
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت: عاطف توقیر