افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ابتدائی معاہدہ طے پا گیا
3 دسمبر 2020تقریباً دو عشرے سے جنگ زدہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت میں افغان حکومت اور طالبان، امن مذاکرات کے طریقہ کار کے سلسلے میں ابتدائی معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔ امریکا نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے تشدد کو روکنے کے لیے ایک اہم موقع قرار دیا ہے۔
اس معاہدے کے بعد فریقین کے مابین مزید بات چیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سے مذاکرات کار جنگ بندی سمیت دیگر اہم مسائل پر بات چیت کو آگے بڑھا سکیں گے۔ اس دوران طالبان کی طرف سے افغان حکومتی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
معاہدے کی تصدیق
افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نادر نادری نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ تمہید سمیت مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب ایجنڈے کے مطابق مذاکرات کا آغاز ہو گا۔
طالبان کے ترجمان نے بھی ٹوئٹر پر ابتدائی معاہدہ ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ٹوئٹر پر لکھا، ”مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب ایجنڈے پر بات چیت کا آغاز ہو جائے گا۔"
فریقین کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایک جوائنٹ ورکنگ کمیٹی کو (امن مذاکرات کے) ایجنڈے کے لیے موضوعات کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔"
معاہدے کا خیرمقدم
یہ معاہدہ پچھلے کئی ماہ سے دوحہ میں جاری مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکا۔ افغانستان میں جاری تشدد کے باوجود امریکا ان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔
افغانستان میں اس وقت سب سے اہم ضرورت جنگ بندی کی ہے۔ عالمی برادری جنگ بندی پر مسلسل زور دیتی رہی ہے تاہم طالبان نے مذاکرات کے ابتدائی مراحل کے دوران جنگ بندی سے انکار کردیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ ایسا اسی وقت ہوگا جب مذاکرات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پر اتفاق ہوجائے گا۔
افغان امور سے متعلق امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک 'سنگ میل‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ فریقین نے تین صفحات کے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے، جس میں سیاسی روڈ میپ اور جامع جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے حوالے سے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا”یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کرنے والے فریقین سخت معاملات پر بھی اتفاق رائے کرسکتے ہیں۔“
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے'ایک مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی لگن اور خواہش‘ کے لیے فریقین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ امریکا ’تشدد کو کم کرنے اور جنگ بندی کے لیے تمام فریقین کے ساتھ مل کر سخت محنت کرے گا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ’سیاسی روڈ میپ اور جنگ بندی کی طرف تیزی سے پیش رفت ہی وہ چیز ہے جو افغانستان کے عوام کسی بھی چیز سے زیادہ چاہتے ہیں۔‘
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی ڈیبورہ لیونز نے اس 'مثبت پیش رفت' کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر پرکہا کہ یہ پیش رفت اس امن کے لیے سنگ میل ثابت ہونی چاہیے جو تمام افغانی چاہتے ہیں۔
افغان رہنماوں کا ردعمل
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹوئٹر پر کہا”(یہ معاہدہ) افغان عوام کی بنیادی مانگ ایک جامع جنگ بندی سمیت اہم امور پر بات چیت شروع کرنے کے لیے آگے کی طرف ایک قدم ہے۔"
افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ نے ایک ٹویٹ میں اس پیش رفت کو 'ابتدائی اہم قدم‘قرار دیا ہے۔
امن مذاکرات کی میزبانی کرنے والے قطر اور افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کی حکومتوں نے بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا میں نائن الیون واقعے کے بعد امریکی فورسز نے سن 2001 میں طالبان کو افغانستان میں حکومت سے برطرف کردیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی افغانستان میں جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گوکہ کابل حکومت کو امریکا کی حمایت حاصل ہے تاہم ملک کے بیشتر حصوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان فروری میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق غیر ملکی افواج کو مئی 2021 تک افغانستان سے نکلنا ہوگا جبکہ اس کے بدلے طالبان کی طرف سے حملے نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کے باوجود افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے جلدی میں نظر آتے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے کرسمس تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری تک افغانستان سے مزید دو ہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا ہے، تاہم اس کے باوجود اس کے ڈھائی ہزار فوجی وہاں تعینات رہیں گے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے منگل کے روز مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو افغانستان سے فوجیوں کے قبل از وقت انخلا کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔
ج ا / ص ز (روئٹرز،اے ایف پی)