افغان صوبے پکتیا میں 11 پاکستانی ہلاک
11 جولائی 2010پکتیا کے گورنر روح اللہ سامون کے مطابق مسلحح افراد نے ڈسٹرکٹ سمکانی میں پاکستانی سیاحوں سے بھری ایک بس پر فائر کھول دئے جس کے نتیجے میں 11 پاکستانی ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔ یہ کرم علاقے سے براستہ افغانستان پشاور جا رہے تھے۔ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق یہ دہشت گردانہ کارروائی مبینہ افغان طالبان نے کی ہے۔ مختلف ذرائع سے جائے وقوعہ کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ بعض خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق پکتیا کے علاقے وژہ میں نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے جس بس پرفائرنگ کی اُس میں پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے افراد سوار تھے۔ ان میں سے گیارہ ہلاک جبکہ کم ازکم چارزخمی ہوئے ہیں۔ دریں اثناء جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کو پاڑہ چنار پہنچا دیا گیا۔ ہفتے کو اس علاقے میں سوگ کا سماں تھا اور کاروبار زندگی بند رہا۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک شدگان کا تعلق کرم ایجنسی کی شعیہ برادری سے تھا۔ اس قبائلی علاقے کو پشاور سے ملانے والی سڑک سنیوں کی اکثریتی آبادی والے علاقے سے گزرتی ہے جہاں آئے دن فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ اس علاقے کی ایک مرکزی شاہراہ پرآمد ورفت کا سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے بند ہے۔ پشاور پہنچنے کے لئے مسافروں کو افغانستان سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاک افغان کی سرحدوں کو ملانے والے اس علاقے سے قبائلیوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دونوں ممالک کے طالبان عناصر نے اپنی اپنی تنظیمیں بنا رکھی ہیں اور اس علاقے میں ان دونوں کے جنگجوؤں اور شیعہ انتہاپسندوں کے درمیان آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
اسلام آباد حکومت نے پاکستان میں طالبان کی پیدا کردہ شورش کو روکنے کے لئے چند اقدامات کئے ہیں تاہم کابل اور اُس کے حلیفوں کی طرف سے پاکستان پران الزامات کا سلسلہ جاری ہے کہ وہ خفیہ طور پر طالبان کی مدد اور اُن کے چوٹی کے لیڈروں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ اسلام آباد کی طرف سے بارہا ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ تاہم افغانستان پاکستان کے لئے علاقائی سلامتی کے ضمن میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے خاص طور سے مشرقی ہمسائے مگر دیرینہ حریف ملک بھارت کی طرف سے کسی قسم کے حملے کی صورت میں افغانستان کا کردار پاکستان کے لئے نہایت اہم ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنے قبائیلی علاقوں میں بھی گو ناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ کرم ایجنسی میں گزشتہ چند سالوں سے پیدا شدہ فرقہ ورانہ فسادات سینکڑوں انسانوں کی ہلاکتوں کا باعث بن چکے ہیں۔
رپورٹ: کشوہر مصطفٰی
ادارت: عابد حسین