افغان طالبان برتری ثابت کرنے کی کوشش میں
6 جنوری 2016افغانستان میں طالبان کی مسلح کارروائیوں میں انتہائی زیادہ اضافے کو اِس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں افغان فوج کے ہم پلہ ہوتے ہوئے شریک ہونا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے افغان سکیورٹی فورسز کو مختلف محاذوں پر طالبان کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور اگلے مذاکراتی عمل میں وہ مزید رعایتوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے بعض بااثر پاکستانی عناصر امن مذاکرات کے عمل کو پٹری سے اتارنے کی پسِ پردہ کوششوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے جاری طالبان کی مسلح کارروائیاں موسمِ سرما میں کم ہو جاتی تھیں لیکن اِس مرتبہ ایسا نہیں ہے اور یہ ایک انتہائی غیرمعمولی پیشرفت قرار دی گئی ہے۔ افغان معاملات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے لیڈر ملا اختر منصور چار فریقی بات چیت سے قبل اپنی قیادت کو زیادہ استحکام دینے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگلے ہفتے کے دوران چارفریقی بات چیت افغانستان، پاکستان، امریکا اور چین کے درمیان شروع ہونے والی ہے۔ بات چیت کے نئے سلسلے میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان معطل شدہ مذاکراتی عمل کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ ہو گی۔
افغان طالبان کے امور پر نگاہ رکھنے والے اہم تجزیہ کار احمد رشید کا خیال ہے کہ ملا اختر منصور حالیہ بڑے حملوں اور اپنے مخالف دھڑے کے ساتھ تصادم کے بعد اپنی قیادت کو جہاں مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں وہاں وہ ایک طرح سے پیغام دے رہے ہیں کہ اگلے موسم گرما میں وہ کس شدت کے ساتھ افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ برسرپیکار ہوں گے۔ رشید کے مطابق قیادت کو مضبوط کرنے سے وہ اپنے مخالف دھڑے کو مزید کمزور کرنے کے علاوہ اُن کے حامیوں کو اپنی جانب راغب بھی کر سکیں گے۔ رشید کے مطابق عسکری مہمات میں شدت سے وہ اپنی قیادت کو جائز قرار دینے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری کا کہنا ہے کہ طالبان اِن مسلح کارروائیوں سے دنیا پر واضح کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ سارے ملک میں موجود ہیں اور اس طرح مذاکرات کی میز پر وہ زیادہ رعایتیں طلب کر سکتے ہیں۔ افغان دارالحکومت کابل میں مقیم دفاعی تجزیہ کار زلمے وردک کا کہنا ہے کہ طالبان کی بساط ہی نہیں کہ وہ امن مذاکرات میں کچھ فیصلہ کر سکیں کیونکہ ان کو کنٹرول کرنے والے کچھ اور عناصر ہیں۔ زلمے وردک کا اشارہ ممکنہ طور پر پاکستان کی جانب تھا۔ پاکستانی شہر پشاور میں مقیم سیاسی تجزیہ کار خادم حسین کا خیال ہے کہ بھارتی ایئربیس پر حملہ اور مزار شریف میں بھارتی فونصلیٹ کے قریب ہونے والی مسلح کارروائی اِس کی عکاس ہے کہ پاکستانی فوج مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔