افغان طالبان کی پاکستان آمد، داعش کے خلاف حکمت عملی؟
24 مارچ 2017تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان ، افغان طالبان، روس، چین، ایران اور خطے کے دوسرے ممالک ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے خاموش کوششیں کر رہے ہیں تاکہ انہیں سبوثاژ نہ کیا جا سکے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کے ایک سات رکنی وفد نے گزشتہ ہفتے پاکستان کا دورہ کیا تھا ، جہاں پاکستانی حکام نے انہیں مسئلہ افغانستان کا بات چیت کے ذریعے حل نکالنے پر زور دیا تھا۔ لیکن وفد نے اسلام آباد کے سامنے اپنے کئی مطالبات رکھ دیے جس میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ پاکستان زیرِ حراست طالبان رہنماؤں کو رہا کرے۔
پاکستانی حکام کی افغان طالبان لیڈروں کے ساتھ ملاقات
اس سلسلے میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم ان اطلاعات کی تردید کرتے ہیں کہ سات رکنی افغان وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ہم نے پاکستان سے اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں کی ۔یہ صرف میڈیا پروپیگنڈہ ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
ماسکو مذاکرات کے حوالے سے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ابھی تک افغان طالبان کو کوئی باضابطہ دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔’’جب ہمیں کوئی دعوت نامہ موصول ہوگا تو ہم اس پر غور کریں گے۔‘‘
جب ڈی ڈبلیو نے پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے اس دورے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، ’’ہم میڈیا کی خبروں پر تبصرہ نہیں کرتے۔ میں اس دورے کی نہ تو تردید کرتا ہوں اور نہ ہی تصدیق۔‘‘
لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان یہ کوشش کر رہا ہے کہ ماسکو مذاکرات کامیاب رہیں۔اس دورے کے حوالے سے معروف تجزیہ نگارجنرل امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ذرائع ابلاغ میں ایسے ہی تو خبریں نہیں آجاتی ۔ میرے خیال میں روس، چین، ایران اور افغان طالبان سب کو داعش ایک مشترکہ خطرے کی شکل میں نظر آرہی ہے ۔ داعش کی موجودگی خطے کے استحکام کے لئے بھی خطرہ ہے۔ اس لیے پاکستان ان کوششوں میں علاقائی طاقتوں کے ساتھ ہے۔ روس نے خطے میں استحکام کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خطے میں یہ تاثر ہے کہ امریکا اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے خطے میں استحکام نہیں دیکھنا چاہتا۔ ٹرمپ پر دباؤ ہے کہ وہ افغانستان میں مزید فوج بھیجیں اور یہ فوجیں اس وقت تک نہیں بھیجی جا سکتیں جب تک وہاں گڑ بڑ نہ ہو۔ اس انتشار کو پھیلانے کے لیے اب داعش کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے لیکن خطے کے ممالک اس صورتِ حال آگاہ ہیں۔ اسی لیے وہ داعش کے خطر ے سے نمٹنے کے لئے بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا، ’’پاکستان چیزوں کو Low Profileمیں اس لیے رکھ رہا ہے کہ جب مذاکرات ماضی میں ناکام ہوئے تو سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا۔ پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ افغان طالبان رہنماؤں کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکالے جائیں اور ان پر سفری پابندیاں ہٹائی جائیں۔ امریکا اس بات کو نہیں مانتا تھا لیکن روس اور چین نے اس بات کو سمجھا اور اب افغان طالبان کئی ممالک کے دورے کر رہے ہیں۔‘‘
تجزیہ نگار ریٹائرڈ میجر جنرل اعجازاعوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مذاکرات کے حوالے سے احتیاط ضرور ی ہے کیوں کہ ماضی میں صرف ملا اختر منصور کو ہی نہیں مارا گیا بلکہ ان کے ساتھ کچھ اور طالبان رہنماؤں کو بھی ہلاک کیا گیا، جس سے مذاکرات کے عمل کو بہت دھچکا لگا۔‘‘
پاکستان نے ڈرون کا مسئلہ عالمی فورم پر اٹھا دیا
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں استحکام چاہتا ہے اور اس کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے۔’’حالیہ مہنیوں میں پاکستان میں کئی ایسے حملے ہوئے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ داعش کی افغانستان میں موجودگی خطے کے لیے خطرہ ہے۔ اسی لیے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جانا چاہییں لیکن افغانستان میں امن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہاں کے پختونوں میں احساسِ شراکت نہ ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُس ملک کی سب سے بڑی لسانی اکائی کو یہ احسا س دلا جائے کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں۔ افغانستان میں امن کے ذریعے ہی داعش کو شکست دی جا سکتی ہے۔ جس کے لیے خطے کے ممالک مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘