افغان مشن کی نئی پالیسی پر فیصلہ جلد
14 اکتوبر 2009ساتھ افغانستان میں تعینات فوجیوں کی اصل تعداد کے بارے میں غلط بیانی پر مبنی رپورٹوں نے امریکی محکمہ دفاع کو وضاحتوں پر مجبور کر دیا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ افغان مشن کے لئے مزید فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گا۔ وہ افغان جنگ کی حکمت عملی پر غور کے لئے آج بدھ کو اپنی عسکری کونسل سے ملاقات بھی کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور نائب صدر جو بائیڈن سمیت اعلیٰ عسکری حکام کی شرکت متوقع ہے۔ گزشتہ ہفتے عسکری کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی صورت حال پر غور کیا گیا تھا، جبکہ ایسا ہی ایک اور اہم دَور آئندہ ہفتے بھی ہوگا۔
منگل کو صدر اوباما نے اسپین کے وزیر اعظم ہوزے لوئس راڈریگس زپاٹروسے ملاقات کی، جس کے بعد ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مزید فوجیوں کی تعیناتی حکمت عملی کا محض ایک رُخ ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ القاعدہ اور اس کے انتہاپسند اتحادیوں کا خاتمہ نئی پالیسی کا حصہ رہے گا۔
ساتھ ہی امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون نے کہا ہے کہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوئی خفیہ اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ یہ بیان اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اوباما انتظامیہ افغان مشن کے لئے فوجیوں کی اصل تعداد ظاہر نہیں کر رہی۔
پینٹا گون کے ترجمان کرنل ڈیو لاپین نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد رواں برس کے آخر تک 68 ہزار ہوجائے گی اور یہ بات بارہا کہی جا چکی ہے۔ کرنل لاپین نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ بھی چھپایا نہیں جا رہا۔
امریکی روزنامہ 'واشنگٹن پوسٹ' نے منگل ہی کو ایک رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا کہ صدر باراک اوباما نے افغانستان میں 13 ہزار مزید فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ تعداد اوباما کی جانب سے رواں برس مارچ میں اعلان کردہ 21 ہزار فوجیوں کے علاوہ ہے۔
اس حوالے سے کرنل لاپین کہتے ہیں کہ ان 13ہزار میں سے نصف فوجیوں کی منظوری سابق صدر جارج بش نے دی تھی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ فوجی دراصل اوباما کے احکامات پر بھی افغانستان پہنچے ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ان کی منطوری سابق حکومت نے دی تھی۔
پینٹا گون کے ترجمان نے بتایا کہ صدر اوباما کی جانب سے اعلان کردہ 21 ہزار اضافی فوجیوں کے علاوہ، اس فورس میں ہزاروں معاون فوجی بھی شامل ہیں، جن کی منطوری بش انتظامیہ نے دی تھی۔
باراک اوباما نے رواں برس 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالا، تو اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 34 ہزار تھی۔ تاہم مارچ میں نئے صدر کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ سال کے آخر تک یہ تعداد 68 ہزار کر دی جائے گی۔
معاون فوجیوں میں دھماکہ خیز مواد کے ماہرین، انجینیئر، طبی ٹیمیں اور خفیہ تجزیہ کار شامل ہوتے ہیں، جنہیں امریکہ کے کسی بھی فوجی آپریشن میں انتہائی اہم خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم کسی بھی خطے میں فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے، معاون فوجیوں کی تعداد اکثر ظاہر نہیں کی جاتی۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ