’افغان مشن کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے‘
3 جولائی 2010جنرل پیٹریاس کی ذمے نہ صرف شورش زدہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے بلکہ غیر ملکی افواج کا باعزت انخلاء بھی ممکن بنانا ہے۔ کابل کے امریکی سفارتخانے میں جنرل پیڑیاس نے کہا کہ اس اہم موڑ پر ایک ہی ٹیم کے طور پر مل کر کام کرنا ناگزیر ہے۔
افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد امریکی اور اتحادی افواج کی کمان سنبھالنے والے یہ کمانڈر کہہ چکے ہیں کہ جنگ ابھی مزید شدید ہوگی۔ ’’یہ ایک سخت مشن ہے، اس میں کوئی آسانی نہیں، تاہم مل کر کام کرنے سے ہم مشترکہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘
جنرل پیٹریاس کو جنگ کی کمان سونپنے کی باقاعدہ تقریب اتوار کو کابل میں سلامتی کی بین الاقوامی معاون فورس ’آئی سیف‘ کے صدر دفاتر میں منعقد ہوگی۔ تاہم امریکی جنرل نے ہفتے کو آئی سیف کے کمانڈروں سے صورتحال کی بریفنگ لینے کے ساتھ ہی اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ ہفتے کو ہی ان کی افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات بھی طے ہے۔
کرزئی سابق کمانڈر جنرل سٹینلے مک کرسٹل کی برطرفی پر خوش نہیں تاہم انہوں نے جنرل پیٹریاس پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
نو سالہ افغان جنگ میں ان دنوں طالبان عسکریت پسندوں اور غیر ملکی افواج کی ہلاکتوں کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں۔ نیٹو کے مطابق اس کی وجہ یہ نہیں کہ طالبان غیر ملکی فوجی دستوں پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں بلکہ اب دراصل ان علاقوں میں بھی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جہاں پہلے ایسے آپریشن نہیں کئے گئے تھے۔
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے سے اب تک لگ بھگ 19 سوغیر ملکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اس طویل جنگ کے بڑھتے مالی اخراجات سے بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان نے حال ہی میں افغانستان کے لئے مزید فوج بھیجنے کی ضمن میں 33 ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔
اب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان کے مرکز سمجھے جانے والے قندہار میں فوجی آپریشن ستمبر تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ افغان سیاسی امور کے تجزیہ نگار ہارون میر کے بقول فی الحال تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ آپریشن شروع ہوگا بھی یا نہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ رواں ہفتے نیٹو نے کنڑ میں غیر اعلانیہ فوجی آپریشن کرکے ڈیڑھ سو سے زائد مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
بعض دیگر مبصرین کے خیال میں جنرل پیٹریاس کی کامیابی کا دارومدار افغان صدر حامد کرزئی سے ان کے تعلقات پر بھی ہے، جو طالبان کو سیاسی عمل کے ذریعے مسلح کارروائیاں ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر