افغان مہاجرین کو ایران تک محدود کرنے کی یورپی یونین کی کوشش
27 اکتوبر 2016یورپی یونین مختلف ملکوں میں مہاجرین کو اُن کے موجودہ کیمپوں میں رکھنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں ترکی، اردن اور لبنان سمیت بعض افریقی ملکوں کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری ہے۔ یونین کے ہیومینیٹیرین امور کے کمیشنر کرسٹوس اسٹائلیانڈیس نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا۔ وہاں وہ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھی گئے۔ اس موقع پر اُن پر افغان مہاجرین نے واضح کیا کہ زندگی اِن کیمپوں میں بہت مشکل ہے اور روزانہ کے لیے دی جانے والی امداد ناکافی ہے۔
اس تناظر میں یورپی یونین نے بعض ملکوں میں مہاجرین کی مالی امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ترکی میں خاص طور پر شامی مہاجرین کے لیے خصوصی مالی کارڈ سسٹم کو متعارف کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یونین کی کوشش ہے کہ پناہ گزینوں کی ہر طریقے سے حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ وہ یورپ کا رخ کرنے سے گریز کریں۔ یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں شامی باشندے پہلے نمبر پر ہیں جب کہ تعداد کے اعتبار سے افغان دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔
ایران کے دورے کے دوران یورپی یونین کے انسانی امور کے کمیشنر کرسٹوس اسٹائلیانڈیس نے رواں برس کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد کو دوگنا کرتے ہوئے اِسے 12.5 ملین یورو کر دیا ہے۔ اس اضافے میں تہران حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ افغان مہاجرین کے بچوں کی صحت، نشو و نما اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
ایران میں مقیم افغان مہاجرین سے گفتگو کرتے ہوئے یونین کے انسانی ہمدردی کے کمشنر نے انہیں ہدایت کی کہ یورپی معاشرے میں انضمام سے بہتر ہے کہ وہ ایران میں اپنے معمولاتِ زندگی کو آگے بڑھائیں کیونکہ یہاں کی معاشرت اُن کے مزاج، سوچ اور رہن سہن سے ہم آہنگ ہے چبکہ یورپ کے ملکوں کی معاشرت میں شامل ہونا انتہائی مشکل امر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں رہتے ہوئے وہ اس قابل بھی ہوں گے کہ مستقبل میں افغانستان کے اگر حالات بہتر ہوتے ہیں تو وہ اپنے وطن آسانی سے لوٹ سکیں گے۔
ایران کی عالمی طاقتوں سے طے پانے والی جوہری ڈیل اور پھر اُس کے قابلِ عمل ہونے کے بعد ایران اور یورپی یونین کے تعلقات میں خاصی بہتری رونما ہوئی ہے۔ یورپی یونین تعلقات میں بہتری کو مہاجرین کے معاملے میں بھی استعمال کرنے کی کوشش میں ہے۔ یورپی یونین کے انسانی امور کے کمشنر کرسٹوس اسٹائلیانڈیس اپنے ایرانی دورے کے دوران کئی معاملات کو نظر انداز کرتے رہے، جن میں آزادیء اظہار، خواتین کے حالت اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے معاملات ہیں۔