افغان مہاجرین کی جرمنی سے وطن واپسی کا معاہدہ
10 ستمبر 2016جرمنی کے ایک مؤقر جریدے ’ڈیئر شپیگل‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغان تارکین وطن کی ملک بدری اور افغانستان واپسی سے متعلق جرمنی کی وفاقی وزارتِ داخلہ اور افغان نائب وزیر داخلہ کے مابین مذاکرات جرمن دارالحکومت برلن میں ہوئے۔ افغان تارکین وطن کی ملک بدری کے طریقہ کار کے بارے میں دونوں ممالک کے مابین اختلافات پائے جاتے تھے تاہم شپیگل کے مطابق ان مذکرات کے دوران معاہدے کی جزیات پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس کے بعد جرمنی اور افغانستان ایک مفاہمتی یادداشت پر متفق ہو گئے۔
جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین
اس معاہدے کے بعد جرمنی سے رضاکارانہ طور پر واپس افغانستان کا رخ کرنے والے تارکین وطن کے علاوہ ایسے افغان پناہ گزینوں، جن کی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے دی جانے والی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں، کی وطن واپسی بھی ماضی کی نسبت کافی حد تک آسان ہو جائے گی۔
برلن میں مذاکرات کے لیے آنے والے افغان وفد نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ افغان شہریوں کو چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ یہ چارٹرڈ طیارے ایک پرواز میں پچاس تارکین وطن کو واپس افغانستان پہنچائیں گے۔ علاوہ ازیں افغان حکومت نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والی افغان خواتین اور بچوں کو ممکنہ طور پر درپیش خطرات کا تدارک بھی کیا جائے گا۔
جرمن وزارت داخلہ کے اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے شپیگل نے لکھا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ طے کرنے میں جرمنی کو کافی مشکلات درپیش تھیں۔ ابتدا میں افغان حکومت نے جرمنی سے مطالبہ کیا تھا کہ وطن واپس لوٹنے والے افغان تارکین وطن کی بحالی کے لیے جرمن حکومت افغانستان کو سالانہ دو ارب یورو فراہم کرے تاہم جرمنی نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ حتمی یادداشت میں یہ طے پایا ہے کہ جرمن حکومت اس ضمن میں افغانستان کو سالانہ 430 ملین یورو اضافی امداد فراہم کرے گی۔
معاہدہ طے پانے کے بعد جرمن حکومت افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری فوری طور پر شروع کرنا چاہتی ہے۔ جرمن صوبوں کے وزارئے داخلہ کی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے شپیگل نے لکھا ہے، ’’اس معاہدے کی کامیابی کی صورت میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے اسی قسم کے معاہدے کیے جائیں گے۔‘‘