1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولبھارت

اف یہ موسم: پہلے انتخابی گرمی اور اب یہ گرمی

29 جون 2024

بھارت میں انتخابی موسم تو نتیجہ آنے کے بعد معتدل ہو گیا تھا لیکن اب سورج سے جو آگ نکل رہی ہے اس نے تو اپنے تمام ہی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان دنوں تو پانی اور بجلی بھی نایاب ہی ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4hZnw
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

دارالحکومت دہلی کے نواح میں ہم حال ہی میں ایک نئے گھر میں منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم نیا گھر تلاش کر رہے تھے، تو میری خواہش تھی کہ کوئی ایسا گھر ہو، جس کے بیڈ روم سے طلوع آفتاب کا لطف اٹھایا جا سکے۔ میری خواہش تو پوری ہو گئی مگر اب یہ سورج آنکھوں کو چھبنے لگا ہے۔ صبح سویرے ہی سورج ایک آگ کے گولے کی صورت میں بیڈ روم میں نمودار ہوجاتا ہے۔

پھر دوپہر تک فلیٹ کی دیواریں اتنی گرم ہو جاتی ہیں کہ ان سے ٹیک لگاکر بیٹھنا تو ناممکن ہوتا ہے۔ پورا فلیٹ ایک بھٹی بن چکا ہوتا ہے۔ دن بھر ایئر کنڈیشنر چلانے سے بجلی کے بل بجٹ سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اب دن میں کتنی بار نہا کر خود کو تر و تازہ کیا جا سکتا ہے۔ غسل خانے میں نلوں سے بھی ابلتا ہوا پانی ہی برآمد ہوتا ہے۔

کاش وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی بیان بازی کے دوران اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بجائے پانی اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو موضوع بنایا ہوتا۔ یا کم از کم موحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے اقدامات پر ووٹ لیے ہوتے، جن سے گرمی کا اثر کو کم کیا جا سکتا۔ مگر کیا کریں عوام کو بھی جذباتی نعرے چاہییں۔

 چند روز قبل پہلے ایک پروفیسر صاحب کے ساتھ دوپہر میں میری ملاقات طے تھی۔ سورج آگ برسا رہا تھا۔ گھر سے باہر نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ میں نے پروفیسر صاحب کو فون کیا، تاکہ معلوم کروں کہ وہ گھر سے نکلے ہیں کہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کی بھی وہی حالت ہے۔ پھر ہم نے زوم پر ہی ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا، یعنی جس طرح کووڈ کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن نے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگائی تھی، ویسے ہی اب گرمی نے غیر اعلانیہ پابندی لگائی ہے۔

ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں اضافی وارڈ بھی بنائے گئے ہیں۔ اس موسم میں صرف دہلی میں اب تک ہیٹ اسٹروک سے 34 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔  یہاں تک کہ مسلمانوں کے لیے مقدس شہر مکہ میں حج کے دوران گرمی کی وجہ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہونے والے زیادہ تر لوگ یا تو دیہاڑی دار مزدور ہیں، سڑکوں پر پھیری لگانے والے یا وہ لوگ ہیں جو دن کا زیادہ تر حصہ کھلے آسمان تلے گزارتے ہیں۔

دہلی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال نے ایک خصوصی یونٹ قائم کیا ہے جس میں برف سے بھرے بڑے باتھ ٹب ہیں۔ یہ ٹب ان مریضوں کے لیے ہیں جو کی وجہ سے تیز بخار کے ساتھ آتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہیٹ اسٹروک کی صورت میں کسی شخص کو آئس ٹب میں بٹھانے سے جسمانی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 ان دنوں دہلی میں پانی کی سپلائی بھی بے ترتیب ہو چکی ہے۔ بھارتی دارالحکومت پانی کی ضروتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے پڑوسی صوبوں پر انحصار کرتا ہے، جن کی پانی کی اپنی ضروریات ہیں۔ اس لیے انہوں نے دارالحکومت کو پانی کی سپلائی کو کم کر دیا ہے۔

بیراجوں میں ذخیرہ شدہ پانی کی مقدار بھی زیادہ نہیں ہے اور اگر یہ مسئلہ جلد ہی حل نہیں ہوتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب دہلی میں وزیروں اور اراکین پارلیمینٹ والے علاقوں میں بھی نل خشک ہو جائیں گے۔

یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ دہلی جیسے شہر میں، جہاں کئی بادشاہوں نے حکومت کی، پانی کی سپلائی ایک اہم ایشو بنتا جا رہا ہے۔ شہر میں بادشاہوں نے ندیوں کا ایک جال بچھایا ہوا تھا، جس سے پانی کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں۔ اب ندیوں پر اب مکان اور کنکریٹ کے جنگل کھڑے ہیں۔

مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے دہلی میں جمنا کے کنارے اپنا محل تعمیر کروایا تھا۔ ان دنوں دریا لال قلعہ کے بالکل پیچھے سے بہتا تھا۔ آج نہ صرف جمنا لال قلعہ سے کئی کلومیٹر دور منتقل ہو چکی ہے، بلکہ اس گرمی میں دریا کا نظر آنا ہی مشکل  ہو جاتا ہے۔ دور دور تک صرف دلدل یا خشک زمیں نظر آتی ہے۔

سال 2018 میں جب بھارتی کرکٹ ٹیم کیپ ٹاؤن میں کھیل رہی تھی تو اس شہر کو پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ ایک اسپورٹس جرنلسٹ کے مطابق ان کو بتایا گیا تھا کہ نہانے میں دو منٹ سے زیادہ کا وقت صرف نہ کریں۔ کرکٹ ٹیم کو بھی یہ پیغام دیا گیا تھا۔

برازیل جو کسی زمانے میں تازہ پانی کے سب سے بڑے ذخائر کے لیے جانا جاتا تھا اور جہاں اوسطاً ایک شخص ہفتے میں تقریباً 12 بار غسل کرتا تھا، آج وہاں لوگوں کو منہ صاف کرنے کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے بھی مشکل ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ اب وہاں نہانے یا بیت الخلا میں استعمال ہونے والے پانی کو نالے میں بہنے نہیں دیا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیائی حکومتوں اور باشندوں کے لیے یہ ایک سبق ہے۔ جتنی پانی کی بے قدری اس خطے میں ہوتی ہے، شاید ہی کہیں ہوتی ہو۔ اب بھی وقت ہے کہ اس بے قدری کو روکا جائے اور پانی کے  موجودہ وسائل  کی حفاظت کی جائے اور انہیں بحال کرایا جائے۔

دہلی میں پاٹ دیے جانے والے اور بند ندی نالوں کو از سر نو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ پہاڑوں میں گلیشیئرز اور پانی کے منبعوں کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔ ان علاقوں میں مذہبی یاتراوں پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے، جو ان علاقوں کا ماحولیاتی توازن بگاڑنے کی ایک اہم وجہ ہیں۔

 ہر سال لاکھوں لوگ ان علاقوں میں جاکر گلیشرز کو نہ صرف روندتے ہیں، بلکہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے وہاں کچرا بھی چھوڑ کر آتے ہیں۔ کیسے ہیں یہ لوگ۔ دیو دیوتا، عوام سے دورتپسیا کرنے کے لیے دنیا تیاگ کر دور دراز کے ان پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے اور ہم وہیں پہنچ کر ان کا دھیان خراب کرتے ہیں۔

 میں تو بس یہی دعا کروں گی۔۔۔

''شایدکہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔