1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے سربراہان کا دورہ بنگلہ دیش

2 جولائی 2018

اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے سربراہان نے بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال کا جائزہ لینے کی خاطر کوکس بازار کا دورہ کیا ہے۔ اسی مقام پر لاکھوں روہنگیا مہاجرین انتہائی مخدوش صورتحال میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/30fxK
Bangladesch Myanmar - Grenzgebiet Rohingya - Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ آج بروز پیر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش اور ورلڈ بینک گروپ کے صدر جِم یونگ کِم نے کوکس بازار میں قائم روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا اور  صورتحال کا براہ راست جائزہ لیا۔

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

میانمار میں ظلم و ستم سے فرار ہو کر تقریباً سات لاکھ روہنگیا مہاجرین اس وقت بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کوکس بازار میں ہی قائم عارضی کیمپوں میں سکونت پذیر ہیں۔

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ مہاجرین انتہائی ابتر صورتحال میں ہیں جبکہ ان کو امداد فراہم کرنے کی خاطر ڈھاکا حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی تناظر میں انٹونیو گوٹیرش اور جِم یونگ کِم بنگلہ دیش پہنچے، جہاں ان کی کوشش رہی کہ عالمی ڈونر روہنگیا مہاجرین کے لیے زیادہ امداد فراہم کرنے کی کوشش کریں۔

بنگلہ دیشی حکام نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے سربراہان نے کوکس بازار میں روہنگیا مسلم مہاجرین کے علاوہ مقامی انتظامیہ کے نمائندوں اور امدادی کارکنوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران بنگلہ دیشی وزیر خارجہ عبدالحسن محمود علی اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرت فیلیپو گرانڈی بھی گوٹیرش اور کم کے ساتھ موجود تھے۔

گوٹیرش نے اتوار کے دن بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سربراہ نے میانمار کے مسلم روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش میں پناہ دینے کے عمل کو سراہا اور کہا کہ ان مہاجرین کو اپنے وطن میں ’منظم اور وسیع پیمانے پر تشدد‘ کا سامنا تھا۔

بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج نے انہیں دانستہ تشدد کا نشانہ بنایا، ان کی املاک کو تباہ کیا، خواتین کا ریپ کیا اور مردوں کو ہلاک کیا۔ تاہم میانمار کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دراصل فوج نے کارروائی صرف انتہا پسندوں کے خلاف کی، جس میں ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو ملحوظ رکھا گیا۔

ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید