اقوام متحدہ کی افغان معیشت کی ڈرامائی صورتحال پر تشویش
6 اکتوبر 2022اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی معیشت کو 'تباہ کن تنزلی‘ کا سامنا ہے۔ بدھ کے روز جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس معیشت کی تعمیر میں 10 سال لگے تھے، وہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں زمین پر آ چکی ہے۔ اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل افغان معیشت کا حجم تقریباﹰ 20 ارب ڈالر کی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی)کے ساتھ پہلے ہی بہت کم تھا۔
چھ ملین افغان باشندوں کو شدید قحط سالی کا خطرہ، اقوام متحدہ
ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ڈائریکٹر کنی وگناراجا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا، ''صرف ایک سال میں تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔یہ تقریباﹰ 10 سال کے جمع شدہ اثاثہ جات اور دولت تھی جو صرف 10 ماہ میں ختم ہو گئی۔‘‘ اقوام متحدہ کی اس اہلکار کا مزید کہنا تھا،''اس طرح کا ڈرامائی زوال ہم نے دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگست 2021ء کے بعد سے کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے،''افغان اپنی آمدنی کا 60 سے 70 فیصد اور ان میں سے بعض 80 فیصد تک خوراک اور ایندھن پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ وگناراجا کا کہنا تھا، ''افغانستان کی 95 سے 97 فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔‘‘ یہ اعداد و شمار صرف ایک سال پہلے 70 فیصد سے کچھ زیادہ تھے۔
اس رپورٹ میں ملک کی معیشت کی ایک تاریک تصویر پیش کی گئی ہے، جس میں بینکاری اور مالیاتی نظام کے خاتمے کو اجاگر کیا گ'لاکھوں افغان موت کے دہانے پر ہیں '، اقوام متحدہ کی تنبیہیا ہے، 2022 ءکے وسط تک سات لاکھ ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں، فارغ ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین ملازمین کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر پانچ میں سے ایک بچہ شدید غذائی کمی کے خطرہ کا شکار ہے اور یہ صورتحال خاص کر جنوبی افغانستان میں زیادہ تشویش ناک ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رسمی معیشت کے خاتمے کی وجہ سے غیر رسمی معیشت کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے ، جو مجموعی گھریلو پیداوار کے بارہ سے اٹھارہ فیصد کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ ایک سال پہلے یہ شرح نو سے چودہ فیصد تھی۔
افغانستان میں یو این ڈی پی کے رہائشی نمائندے عبداللہ الدرداری نے کہا کہ صرف انسانی امداد ہی معاشی تباہی کی تلافی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی ضرورت والے افغانوں کی تعداد صرف 14 ماہ میں 19 ملین افراد سے بڑھ کر 22 ملین افراد تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگلے تین سالوں میں ہم نجی شعبے کی بحالی کے ذریعے، مقامی برادریوں کے ساتھ کام کر کے، خواتین کاروباری افراد پر توجہ مرکوز کرکے اور زرعی پیداوار، مائیکرو فنانس اور بینکنگ کی بحالی کے ذریعے 20 لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ش ر⁄ ع ا (اے ایف پی)