1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف، پاکستان منزل سےکہیں دور

شکور رحیم، اسلام آباد3 جنوری 2015

پاکستان سال 2015 ء کے اختتام پر اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف یا میلینئیم ڈیولپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔

https://p.dw.com/p/1EEXy
تصویر: picture-alliance/AP

نئی صدی کے آغاز پر سن 2000 ء میں اقوام متحدہ نے تاریخی "میلینئیم سمٹ" میں عالمی ترقی کے لئے ہزاریہ اہداف مقرر کیے تھے۔ اس اجلاس میں دنیا کے 193 ممالک اور 23 بین الاقوامی تنظیموں نے ترقیاتی ترجیحات کے تعین اور ان کے حصول کا عہد کرتےہوئے ایک دستاویز پر اپنے دستخط ثبت کیے تھے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے آٹھ اہداف کا تعین کیا گیااور ان کے حصول کے لئے دسمبر 2015 ء کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔ ان اہداف میں شدید غربت کا خاتمہ، بنیادی تعلیم کا حصول، صنفی مساوات کا فروغ اور خواتین کو بااختیار بنانا، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، زچہ وبچہ کی صحت میں بہتری، ایچ آئی وی/ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں کے روک تھام، ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانا اور عالمی ترقیاتی کاموں کے لئے شراکت داری کا قیام شامل ہے۔

پاکستان میں حکومتی سطح پر غربت میں کمی کے دعووں کے باوجود بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق حکومت نے گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں غربت کی شرح کا سروے کرایا ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا، ’’غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اب بھی ملک کی ساٹھ فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں خراب حکمرانی، مؤثر اقتصادی پالیسیوں کا عدم تسلسل اور امن وامان کا مسئلہ شامل ہے۔‘‘

Karachi Armut karitative Organisationen
پاکستان غربت اور تعلیم کے معاملے میں ہزاریہ اہداف سے کہیں دور ہےتصویر: DW

اس کے ساتھ ساتھ بھوک کا خاتمہ بھی اقوم متحدہ کے پہلے ہزاریہ ہدف کا حصہ تھا لیکن اس بارے میں بھی صورت حال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کی پچاس فیصد آباد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ کے دوسرے ہزاریہ اہداف کے تحت 2015 ء تک تمام کم عمر بچوں کو پرائمری کی سطح پر اسکولوں میں داخل کرانا تھا۔ تاہم حال ہی میں الف اعلان نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پرائمری کی سطح پر طلبہ کے اندراج میں بہتری آئی ہے لیکن اس میں بھی لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد کم ہے۔

تعلیم کے شعبے کی بہتری ی کے لئے غیر سرکاری شعبے کے ساتھ کام کرنے والے مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئین تمام بچوں کو مفت لازمی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر تعلیم کے شعبے کی کاکردگی جاننے کے لئے کیے جانے والے سالانہ سروے کے اعدادوشمار بھی چشم کشا ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس سروے کے مطابق پاکستان میں 51 فیصد پرائمری اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ اسی طرح 42 فیصد میں بیت الخلاء جب کہ36 فیصد میں پینے کا پانی موجود نہیں۔‘‘

مشرف زیدی کے مطابق اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے قومی سطح پر انتہائی سنجیدگی کی ضرورت تھی جو بدقسمتی سے نظر نہیں آئی۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق مثبت پیش رفت کی ہے ۔ اس میں قومی اسمبلی میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کے لیے آئینی ترمیم کے علاوہ ا ن کے خلاف تشدد کے خاتمے کے قانون اور کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف خاتوں محتسب کے دفتر کا قیام شامل ہے۔

پاکستان نے صحت کے شعبے میں ٹی بی کے مرض پر قابو پانے میں تو کامیابی حاصل کی اور ایچ اآی وی ایڈز اور ملیریا کے خاتمے کے لئے عوامی شعور اور آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کے تدارک کے لئے قومی پروگرام بھی شروع کیے ۔ البتہ پولیو کے موذی مرض کے خاتمے میں اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور پاکستان گزشتہ برس دو سو سے زائد پولیو کے کیسزز کے ساتھ دنیا کا سب سے متاثرہ ملک رہا۔

حکومتی وزراء اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی کی بڑی وجہ پاکستان کے اندرونی مسائل کو قرارد دیتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق گزشتہ کائی سالوں سے ملک کی خراب اقتصادی صورتحال، زلزلوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات، ملک میں جاری شدت پسندی اور دیگر تنازعات کے علاوہ انتظامی اور سیاسی تبدیلیاں مختلف ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں رکاوٹ بنی رہی ہیں۔