امر بالمعروف کے نام پر منعقد کیے گئے اس جلسے میں مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو سٹیج سے فجر کی اذان نشر کر دی گئی۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی انسانی خطا تھی لیکن اس خطا میں اس پورے معاشرے کا اصلی چہرہ نظر آ رہا تھا، جہاں دین کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کے پاس کوئی ایک مؤذن بھی دستیاب نہ تھا، جو مغرب کی اذان دے سکتا۔ اس خطا پر دل بہت مغموم ہوا۔ یہ جلسہ گاہ کم اور جلوہ گاہ زیادہ نظر آ رہی تھی تھی۔
امر بالمعروف کے نام پر ناچ گانا ہو رہا تھا۔ 'منافقت کے جلوے‘ پوری دنیا دیکھ رہی تھی۔ جو صحافی دوست اس جلوہ گاہ میں موجود تھے، ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان نے تقریر شروع کی تو تیس ہزار کے قریب لوگ جلوہ گاہ کے اندر اور باہر موجود تھے اور تقریر ختم ہونے تک یہ تعداد کم ہو گئی تھی۔
خان صاحب کی تقریر کافی لمبی تھی۔ وہ نہ تو دس لاکھ افراد کا جلوہ دکھا سکے اور نہ ہی تقریر میں کوئی سرپرائز موجود تھا۔ ان کے ٹرمپ کارڈ کا بہت چرچا تھا لیکن یہ آخر میں بھٹو کارڈ نکلا۔ خان صاحب فرما رہے تھے کہ جس طرح آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو سازش کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا تو ان کے خلاف بھی ویسی ہی سازش ہو رہی ہے۔
دوسرے الفاظ میں جناب وزیراعظم یہ الزام لگا رہے تھے کہ فوج اور اپوزیشن بیرونی امداد سے میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ تقریر کے دوران ہی ان کے ایک اتحادی خالد مگسی صاحب نے فون کیا اور کہنے لگے کہ بھائی اس تقریر میں کون سا سرپرائز ہے؟ میں ہنس دیا اور وہ بھی ہنس دیے۔ مگسی صاحب قومی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے انہیں اپنے ساتھ رکھنے کے لیے پیار محبت کی بجائے دھونس اور دھمکی سے کام لیا اور دھمکی کے لیے، جن کو استعمال کیا، وہ بھی ایک قومی راز ہے۔
بہرحال دھمکی دینے والوں کا بروقت علاج ہو گیا۔ اگر خان صاحب اپنے اتحادیوں کے ساتھ عاجزی و انکساری سے بات کرتے تو شاید انہیں 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں اتنا بڑا ڈرامہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ انہوں نے جیب سے ایک خط نکالا اور واپس اپنی جیب میں ڈال دیا۔ نہ دس لاکھ افراد کا جلوہ، نہ کوئی سرپرائز اور نہ ہی ٹرمپ کارڈ۔ تقریر ختم ہونے پر خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر یاد آیا،
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
عمران خان کے فلاپ ڈرامے کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید کا منہ دیکھنے والا تھا، انہیں ''اپنے کپتان سے اتنے بڑے دھوکے‘‘ کی توقع نہ تھی۔ شیخ رشید نے سن 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھٹو حکومت کے خلاف بڑا سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ کپتان کی تقریر نے شیخ صاحب کے ماضی کو پھر سے داغدار کر دیا۔ آج انہی عندلیب یاد آ رہی تھی۔ سید محمد خان رند والی عندلیب، جنہوں نے فرمایا تھا،
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
شیخ رشید احمد کو بھی پتہ ہے کہ عمران خان غلطی پر غلطی کر رہے ہیں۔ سن 1977ء اور سن 2022ء میں بہت فرق ہے۔ سن 1977ء مارشل لاء کے ذریعے بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تھی۔ سن 2022ء میں آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ہٹایا جا رہا ہے۔
یہ یہ کیسی غیر ملکی سازش ہے، جس کی خبر میں نے ڈی ڈبلیو اردو کے قارئین کو 12 جنوری سن 2022ء کو اپنے کالم میں دے دی تھی۔ کالم کا عنوان تھا ''تبدلی سرکار میں بغاوت‘‘۔ اس کالم میں واضح طور پر لکھا تھا کہ نور عالم خان سمیت تحریک انصاف کے 22 ارکان قومی اسمبلی اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ نو فروری 2022ء کو''ایک اور سیاسی شہید‘‘ کے عنوان سے اس خاکسار نے اپنے کالم میں آپ کو اطلاع دی تھی کہ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کالم میں یہ بھی عرض کر دیا گیا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بڑی خاموشی سے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں کیونکہ اب فیصلے ٹی وی سکرینوں پر نہیں، بند کمرے میں ہوں گے۔
اصل کہانی یہ ہے کہ عمران خان 26 مارچ تک اپنے اتحادیوں کو یہ تاثر دیتے رہے کہ میں کہیں نہیں جا رہا۔ لہذا آپ جس تنخواہ پر میرے ساتھ کام کر رہے ہیں، اسی پر کام کرتے رہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے اتحادیوں کے سامنے بار بار جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام استعمال کیا اور کہا کہ وہ ان سے مل کر آئے ہیں۔ انہوں نے آپ کے لیے پیغام دیا ہے کہ آپ ہماری حمایت کا اعلان کر دیں۔ اتحادیوں نے معلوم کیا تو پتا چلا کہ باجوہ صاحب تو بالکل اُس پوزیشن پر کھڑے ہیں، جو آئین کی دفعہ 244 کے تحت لیے گئے حلف نے ان کے لیے متعین کی ہے۔ وہ سیاست سے دور ہیں۔
اس دوران اور بھی بہت سے ہوشربا واقعات پیش آئے۔ اگر یہ کچھ نواز شریف یا آصف زرداری کرتے تو عمران خان ان پر بغاوت کا مقدمہ درج کر چکے ہوتے۔ یہی وجوہات ہیں، جن کے باعث کبھی کبھی زرداری صاحب نجی محفلوں میں اکبر الہ آبادی کا یہ شعر سنایا کرتے ہیں،
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
عمران خان کو توقع نہیں تھی کہ زرداری صاحب اُس شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے پر تیار ہو جائیں گے، جو ان کا پیٹ پھاڑنے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ یہی تو فرق ہے خان صاحب اور زرداری صاحب میں۔ زرداری صاحب نے اپنی انا کی قربانی دے دی لیکن خان صاحب کی انا تو مینار پاکستان سے بھی بلند ہے۔
اب یہ بھی سن لیجیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف)، جس نے پارلیمنٹ سے استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم توڑ دیا اور پیپلز پارٹی کو خدا حافظ کہہ دیا، وہ اچانک تحریک عدم اعتماد پر کیسے راضی ہو گئے؟ تو جناب قصہ یوں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو تحریک انصاف کے کچھ باغی ارکان اور اتحادیوں نے خبردار کیا کہ عمران خان اپریل سن 2022 ء میں اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کر دیں گے۔ اس اعلان کے بعد اپوزیشن اور میڈیا کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن ہو گا۔ اس کریک ڈاؤن کو قانونی جواز بخشنے کے لیے کچھ صدارتی آرڈینینس جاری کیے جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو یہ خبریں جنوری میں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔
ان جماعتوں کو یہ پتہ بھی چل گیا کہ عمران خان آئندہ انتخابات میں ہر قیمت پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے کچھ اتحادی جماعتوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے آپ کو تحریک انصاف میں ضم کر دیں۔ پھر ایک وفاقی وزیر نے اپوزیشن کو یہ خبر دی کہ خان صاحب آئندہ انتخابات کے بعد پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور سن 1973ء کے آئین کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں۔ سن 73 کا آئین پاکستانیوں کا واحد متفقہ سیاسی دستاویز ہے، جس نے اس ملک کو متحد کر رکھا ہے۔ آئین سے کھیلنے کا مطلب پاکستان کی سلامتی سے کھیلنا تھا لہذا مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) نے فیصلہ کیا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر آئینی طریقے سے عمران خان کو ہٹایا جائے اور آئین کو بچایا جائے۔
اب خان صاحب اسے غیر ملکی سازش قرار دے رہے ہیں۔ مجھے تو اس سازش کا پتہ پارلیمنٹ لاجز میں شیخ روحیل اصغر کے عشائیے میں چلا تھا، لندن یا واشنگٹن سے نہیں۔ میں نے 12 جنوری 2022ء کو سازش بے نقاب کر دی تھی۔آپ پھر بھی اپنے بائیس ناراض ارکان کو نہ منا سکے، یہ واقعی نااہلی ہے۔ اس لیے خدا حافظ!
بقول میر تقی میر،
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔