امداد کی بحالی کے لیے پاکستان پر مزید موثر اقدامات اٹھانے کے لیے دباؤ
12 جولائی 2011واشنگٹن میں دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولانڈ نے بتایا کہ پاکستان کو اب اس طرح سے فوجی امداد نہیں دی جائے گی، جس طرح پہلے دی جاتی تھی۔ ان کے بقول، ’’ جہاں تک عسکری تعاون کا تعلق ہے، ہم مزید اس رفتار سے یہ تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں، جس رفتار سے پہلے فراہم کرتے رہے ہیں، اس وقت تک، جب تک کچھ مخصوص اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔‘‘
اس سلسلے میں امریکی اہلکاروں کے لیے پاکستانی ویزوں کے اجراء میں آسانی اور امریکی فوجی تربیت کاروں کو پاکستان میں اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دینے جیسے اقدامات سر فہرست خیال کیے جا رہے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما کے چیف آف سٹاف ولیم ڈیلے اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ اسلام آباد کو ملنے والی سالانہ 2.7 ارب ڈالر کی دفاعی امداد کا قریب ایک تہائی حصہ ’800 ملین ڈالر‘ روک لیا گیا ہے۔
پیر ہی کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کیا اور وضاحت کی کہ امداد کی معطلی کا مطلب اس ضمن میں پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے۔ کلنٹن نے واشنگٹن میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا، ’’ ہمیشہ ہی سے پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات آسان نہیں رہے ہیں۔ البتہ ہم اسے اپنی قومی سلامتی اور خطے میں اپنے مفاد کے لیے اہم خیال کرتے ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ شراکت کا انحصار ہمیشہ ہی سے تعاون پر رہا ہے اور رہے گا۔
دوسری جانب بھارت نے پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد کی معطّلی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کا ایک بیان جاری کیا ہے، جس کے مطابق، ’’یہ اچھا نہیں کہ خطے کو امریکی ہتھیاروں کی بھاری مقدار سے مسلح کیا جائے۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ 19 جولائی سے بھارت کا دورہ کر رہی ہیں، جس دوران دو طرفہ اسٹریٹیجک مذاکرات ہوں گے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق