امريکا اور چين کے مابين مذاکرات مگر کشيدگی برقرار
11 مئی 2019امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چين سے درآمد کی جانے والی بقيہ تقريباً تمام اشياء پر ٹيکس بڑھانے کا عمل شروع کر ديا ہے۔ تجارت سے متعلق امريکی نمائندے رابرٹ لائٹ ہائزر نے اپنے بيان ميں کہا، ’’صدر نے ہميں بقيہ تمام چينی مصنوعات پر تين سو بلين ڈالر ماليت کے اضافی محصولات عائد کرنے کا عمل شروع کرنے کے احکامات جاری کر ديے ہيں۔‘‘
يہ پيش رفت امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر جمعے کی شام سامنے آئی۔ ان مذاکرات کو ٹرمپ نے تعميری اور اچھے ماحول ميں ہونے والے مذاکرات قرار ديا تھا البتہ بعد ازاں انہوں نے اضافی محصولات کے احکامات جاری کر ديے۔ ان مذاکرات ميں گو کسی ڈيل کو حتمی شکل نہيں دی جا سکی ليکن بات چيت کا عمل ختم بھی نہيں ہوا، جس سے ايسی اميديں ابھی برقرار ہيں کہ دنيا کی دو سب سے بڑی معيشتيں تجارتی کشيدگی کو شايد مستقبل قريب ميں ختم کر سکيں۔
ٹرمپ نے بعد ازاں کہا، ’’ميرے اور چينی صدر شی جن پنگ کے تعلقات مضبوط ہيں اور مستقبل کے حوالے سے بات چيت کا عمل جاری رہے گا۔‘‘ امريکی صدر کے بقول چين پر عائد کردہ اضافی محصولات ختم ہوں گی يا نہيں، اس کا دارومدار مستقبل ميں ہونے والے مذاکرات پر ہو گا۔
تجارت کے حوالے سے چين کے اعلٰی ترين مذاکرات کار ليو ہی نے خبردار کيا ہے کہ امريکی اقدام کا چين کو بھی جواب دينا پڑے گا۔ ہی کے بقول فريقين کے مابين عنقريب بيجنگ ميں اگلی ملاقات ہو گی ليکن فی الحال اس ملاقات کی تاريخ طے نہيں۔
شنگھائی ميں قائم ’فرسٹ سی فرنٹ فنڈ مينجمنٹ‘ کے ماہر اقتصاديات يانگ ڈيلونگ کے مطابق ٹرمپ کے رويے ميں اچانک سختی کی وجہ ممکنہ طور پر آئندہ برس ہونے والے امريکی صدارتی اليکشن ہو سکتے ہے۔ ان کے بقول امريکا کو توقع ہے کہ چين کئی معاملات ميں رعايات دے سکتا ہے۔
واضح رہے کہ بيجنگ اور واشنگٹن کے مابين گزشتہ برس سے جاری تجارتی جنگ ميں اب تک دونوں فريقين ايک دوسرے کی درآمدات پر قريب 360 بلين ڈالر ماليت کے ٹيکس عائد کر چکے ہيں۔
ع س / ا ب ا، نيوز ايجنسياں