امريکی سفير اور طالبان کی براہ راست ملاقات، امن کی اميد
19 نومبر 2018اس پيش رفت کی تصديق طالبان کے قريبی ذرائع نے اتوار اٹھارہ نومبر کے روز کر دی ہے۔ امريکی سفير نے مذاکرات کی تفصيلات بيان کيے بغير بتايا کہ وہ شورش زدہ ملک افغانستان ميں قيام امن کے ليے تمام فريقوں سے بات چيت کر رہے ہيں، جن ميں مختلف گروپ شامل ہيں۔ زلمے خلیل زاد نے يہ بيان اتوار کی شام قطر ميں منعقدہ ايک پريس کانفرنس ميں ديا۔ ان کے بقول اس وقت امن اور مفاہمت کا بہترين موقع ہے۔
افغانستان ميں قيام امن کے ليے خلیل زاد کی بطور سفير تعيناتی کے بعد سے افغان امن عمل ميں تيزی آئی ہے۔ افغانستان ميں عسکری کارروائی شروع کيے ہوئے امريکا کو اب سترہ برس بيت چکے ہيں۔ ليکن آج بھی اس ملک کا نصف حصہ طالبان کے کنٹرول ميں ہے اور تقريباً يوميہ بنيادوں پر ہی طالبان جنگجو حملے کر رہے ہيں۔
قطر ميں منعقدہ پريس کانفرنس ميں امریکی خصوصی ایلچی نے کہا، ’’ افغان حکومت امن کی خواہاں ہے۔‘‘ ان کے بقول طالبان بھی يہ تسليم کر چکے ہيں کہ ان کے مقاصد کا حصول عسکری راستے سے ممکن نہيں اور اب وہ يہ ديکھا چاہيں گے کہ مذاکرات کے ذريعے کون کون سے مسائل حل ہو سکتے ہيں۔
ايسا دکھائی ديتا ہے کہ امريکی انتظاميہ اب طالبان کے ساتھ کسی سياسی سمجھوتے کی کھوج ميں ہے۔ يہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے طالبان کے بہت سے مطالبات کے ليے لچک دکھائی ہے، جن ميں سرفہرست براہ راست مذاکرات ہيں۔ دريں اثناء خیال کیا گیا ہے کہ پاکستان ميں سے سينئر طالبان رہنما ملا برادر کی رہائی بھی اس عمل ميں معاونت فراہم کر سکتی ہے۔
افغانستان کے ليے امريکی سفير زلمے خلیل زاد کے بقول وہ محتاط انداز ميں پر اميد ہيں کہ امن کے کسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول امکان ہے کہ افغانستان کے مختلف گروپوں کو اس ملک کے مستقبل کے ليے کسی روڈ ميپ پر متفق کيا جا سکے، جس ميں عورتوں کے حقوق، قانون کی بالا دستی وغيرہ جيسی چيزيں شامل ہوں۔
ع س / ع ح، نيوز ايجنسياں