امريکی صدر کا دورہ چين، شمالی کوريا اور تجارت اہم موضوعات
8 نومبر 2017ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہليہ ملانيا ٹرمپ کے ہمراہ تين روزہ دورے پر چين پہنچ گئے ہيں۔ چينی صدر شی جن پنگ اور ان کی اہليہ پينگ ليوان سے ملاقات کے بعد وہ چين کی معروف ’فاربڈن سٹی‘ کے دورے پر بھی جائيں گے۔ بعد ازاں ايک اوپرا پروگرام ميں شرکت اور پھر شام کے وقت ايک شاہی عشائيہ بھی امريکی صدر کی آج کی مصروفيات ميں شامل ہيں۔
چين آمد سے کچھ ہی گھنٹے قبل ٹرمپ نے جنوبی کوريائی پارليمان سے اپنے دھوئيں دار خطاب ميں شمالی کوريا کی ’ظالم آمريت‘ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ملک کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ ٹرمپ نے شمالی کوريائی رہنما کم جونگ ان کو جوہری عزائم ترک کرنے کے بدلے ايک روشن مستقبل کی پيش کش بھی کی۔ ٹرمپ پچھلے چوبيس برسوں ميں سيئول حکومت کی پارليمان سے خطاب کرنے والے پہلے امريکی صدر ہيں۔ اس موقع پر انہوں نے عالمی برادری اور بالخصوص چين اور روس پر زور ديا کہ شمالی کوریا کی اشتعال انگيزی اور متنازعہ جوہری پروگرام کے انسداد کے ليے عملی اقدامات اٹھائے جائيں۔
شمالی کوريا کے حوالے سے چين کی پاليسی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ بيجنگ حکومت پيونگ يانگ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے متنازعہ جوہری و ميزائل پروگرام کو ترک کرے، تو اس کا واشنگٹن اور سيئول سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنی سالانہ بحری جنگی مشقيں ترک کريں۔ تاہم امريکا ماضی ميں اسے مسترد کر چکا ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن چين سے زيادہ سخت پابنديوں کا مطالبہ کرتا ہے۔
چينی اور امريکی قيادت کے درميان ايک اور اہم معاملہ تجارت ہے۔ صدر ٹرمپ ايک عرصے سے چين سے مطالبہ کرتے آئے ہيں کہ تجارتی خسارے ميں کمی لائی جائے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چين کا امريکا کے ساتھ تجارتی سرپلس اکتوبر ميں معمولی کمی کے ساتھ 26.6 رہا جو کہ ستمبر ميں 28.1 تھا۔ امريکی صدر کے ساتھ ايک تجارتی وفد بھی ہے اور امکان ہے کہ وہ توانائی کے شعبے ميں متعدد معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں ايشيا کے دورے پر ہيں، جس ميں وہ پانچ ممالک جائيں گے۔ انہوں نے اتوار کو جاپان سے اپنا دورہ شروع کيا اور اب جنوبی کوريا اور چين کے بعد وہ ويت نام اور فلپائن بھی جائيں گے۔