امریکا افغان طالبان کے ساتھ بہت جلد امن معاہدے کا خواہش مند
9 فروری 2019افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے جمعہ آٹھ فروری کی شام افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ افغانستان میں ہونے والے جولائی کے صدارتی انتخابات سے قبل طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ امن ڈیل کو حتمی شکل دے دی جائے۔ انہوں یہ بات امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن کی ایک تقریب سے اپنے خطاب کے دوران کہی۔
امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن میں تقریر کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نےکہا کہ امریکا کا افغانستان کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے یہی موقف چلا آ رہا ہے کہ یہ ایک بااختیار اور آزاد ملک ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان عوام کی منشا ہوئی تو غیر ملکی فوجی وہاں تعینات رہیں گے اور اگر وہ ایسا نہیں چاہتے تو امریکا بھی اُس مقام پر اپنی فوج نہیں رکھنا چاہے گا جہاں عوام ایسا نہیں چاہتے۔ زلمے خلیل زاد نے تاہم یہ ضرور واضح کیا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان میں امریکی سکیورٹی مفادات محفوظ ہوں اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔
زلمے خلیل زاد نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ آئندہ افغان صدارتی الیکشن کے باعث امن ڈیل کا حصول بظاہر پیچیدہ دکھائی دیتا ہے لیکن امریکی کوشش ہے کہ اس ممکنہ معاہدے کو جتنا جلد طے کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہو گا۔ خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ امن ڈیل کا فریم ورک تیار کر لیا گیا ہے۔
زلمے خلیل زاد یہ بات کئی بار دہرا چکے ہیں کہ امریکا افغانستان سے اپنا مکمل فوجی انخلا اُسی صورت میں کرے گا کہ اس بات کا تعین ہو جائے کہ یہ ملک دوبارہ جہادیوں کی محفوظ پناہ گاہ ثابت نہیں ہو گا۔ اس وقت افغانستان میں امریکا کے تقریباً چودہ ہزار فوجی متعین ہیں اور یہ افغانستان کی قومی فوج کو عسکری معاملات میں مشوروں کے ساتھ ساتھ فوجی آپریشن میں مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات رواں برس بیس اپریل کو ہونا تھے لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے امن مذاکرات سے پیدا شدہ نئی صورت حال کے تناظر میں افغان صدر اشرف غنی نے یہ الیکشن تین ماہ کے لیے مؤخر کر دیے تھے۔ صدر اشرف غنی خود بھی ان انتخابات میں شریک ہو کر اپنے لیے دوسری مدتِ صدارت کے خواہش مند ہیں۔