1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور چین کی تجارتی جنگ میں کیا جرمنی نقصان اٹھائے  گا؟

صائمہ حیدر کلاؤس اولرش
6 اپریل 2018

جرمن ہول سیل فیڈریشن اور بیرون ملک تجارت کے سربراہ ہولگر بنگ من نے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ امریکا اور چین کے مابین تجارتی تنازعات کے سبب جرمنی کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2vd9R
G20 Gipfel in Hamburg | Trump & Jinping & Merkel
تصویر: Reuters/K. Nietfeld

ڈی ڈبلیو: چین اور امریکا کا تجارتی تنازعہ اب کنٹرول سے باہر نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان یہ تجارتی تناؤ جرمنی کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟

 ہولگر بنگ من: سب سے پہلے میں یہ کہوں کا کہ یہ تجارتی تنازعہ ہے تجارتی جنگ نہیں ہے۔ تجارت ہمیشہ فریقین کو قریب لاتی ہے انہیں الگ نہیں کرتی۔ جرمنی کے برآمد کنندگان کے لیے اس تنازعے کے براہ راست اثرات کم ہیں لیکن وہ جرمن کمپنیاں جو امریکا میں رہتے ہوئے چینی مارکیٹ کے لیے مصنوعات بناتی ہیں، مثلاﹰ کاریں بنانے والی کمپنیاں، اُن پر اس تنازعے کے یقیناﹰ منفی اثرات پڑیں گے۔

ڈی ڈبلیو: چین اور امریکا کے اس تجارتی تنازعے میں کیا جرمنی کو نقصان اٹھانا پڑے گا؟

BGA Präsidium  Dr. Holger Bingmann
ہولگر بنگ منتصویر: Annett Melzer

ہولگر بنگ من: میں سمجھتا ہوں کہ جرمنی کو دیگر یورپی اداروں کے ساتھ مل کر دونوں فریقین کے درمیان اس تجارتی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔ اس مسئلے کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصول و ضوابط کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر صدر ٹرمپ محصولات میں اضافے کی اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا اثر جرمنی اور یورپی یونین پر بھی پڑے گا جو امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو: کیا آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ تجارتی تنازعہ اب بھی حل ہو سکتا ہے؟

ہولگر بنگ من: مجھے صدر ٹرمپ کی جذباتیت پر افسوس ہے۔ یہ سمجھنا میرے لیے ذرا مشکل ہے۔ میرے مشورہ  ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر اور فیصلہ سازی میں درست ڈگر کا انتخاب کریں گے۔ پھر بھی میں کہوں گا کہ ابھی ایسا نقصان نہیں ہوا جسے پورا نہ کیا جا سکے۔ اگر چین اور امریکا لڑنے کے بجائے بات چیت سے مسئلے کو حل کریں تو یہ تنازعہ ختم ہو سکتا ہے۔