امریکا جوہری پالیسی تبدیل نہ کرے، برطانیہ، فرانس اور جرمنی
30 اکتوبر 2021امریکا کے یورپی اتحادی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے علاوہ ایشیا پیسیفک سے جاپان اور آسٹریلیا اس کوشش میں ہیں کہ وہ صدر جو بائیڈن کو قائل کر سکیں کہ وہ موجودہ جوہری پالیسی میں تبدیلی مت پیدا کریں بلکہ اس کا تسلسل رکھیں۔
نئی امریکی جوہری پالیسی، چین نے بھی مخالفت کر دی
ان کا موقف ہے کہ اگر اس میں تبدیلی پیدا کر دی گئی تو پہلے سے موجودہ امریکی دفاعی تاثر یا 'ڈیٹرینس‘ میں کمی واقع ہو گی۔ اس ڈیٹرینس کا مقصد روس اور چین کو ایک حد میں رکھنا ہے۔ اتحادیوں کا خیال ہے کہ اس ڈیٹرینس کے کم ہونے سے روس اور چین علاقائی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ڈیٹرینس سرد جنگ کے دور کی اصطلاح ہے اور اس کا مطلب خاص طور پر سابقہ سویت یونین کی جارحیت یا توسیع پسندانہ عزائم کو روکنا مراد ہے۔ اب سابقہ سوویت یونین کی جگہ روس اور چین نے لے لی ہے۔
جوہری پالیسی میں تبدیلی
امریکی جریدے فنانشل ٹائمز نے اپنی جمعہ انتیس اکتوبر کی اشاعت میں واضح کیا کہ امریکا اب جوہری ہتھاروں کے استعمال میں 'پہل‘ نہ کرنے کا اصول اپنانے کے قریب ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق امریکی پالیسی پر ردعمل
مبصرین کے مطابق اس تبدیلی سے بظاہر یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکا جوہری ہتھیاروں کا استعمال اسی وقت کرے گا جب اسے اپنی سرزمین یا خاص مفادات کو خطرات لاحق ہوں گے یا ایسا احساس ہو گا کہ اسے جوہری حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس تناظر میں امریکی اتحادیوں کا موقف ہے کہ ایسی پالیسی متعارف کرنے سے امریکا کی اپنے اتحادیوں کے لیے قائم 'جوہری چھتری‘ کمزور ہو کر رہ جائے گی۔ فنانشل ٹائمز نے ایک یورپی اہلکار کی شناخت ظاہر کیے بغیر رپورٹ کیا کہ یہ صورت حال روس اور چین کے لیے ایک تحفہ ہو گی۔
جی ٹوئنٹی میں وضاحت
امریکی اتحادیوں کی خواہش ہے کہ امریکی صدر اپنی جوہری پالیسی کو صرف امریکا تک محدود نہ کرے بلکہ اس میں اتحادی بھی شامل رکھے جائیں۔ اس نئی امریکی پالیسی کے حوالے سے اتحادی صدر جو بائیڈن سے روم میں منعقدہ جی ٹوئنٹی سمٹ کے دوران ان کے خیالات سننے کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق نئی امریکی پالیسی
جمعہ انتیس اکتوبر کو امریکی صدر کی اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل ماکروں سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں ایک قابل اعتبار اور متحدہ جوہری اتحاد کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مشترکہ بیان میں جوہری معاملات پر قریبی مشاورت کا وعدہ اور عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اکتوبر کے اوائل میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا تھا تو اس وقت بھی اتحادیوں نے انہیں امریکی جوہری پالیسی میں بڑی اور واضح تبدیلیاں پیدا کرنے سے روکنے کی کوششیں کی تھیں۔
امریکہ کی ایٹمی پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا امکان
امریکی وزارت دفاع کے صدر دفتر پینٹاگون کے ترجمان جان کِربی کا کہنا ہے کہ جوہری پالیسی پر اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے اور رواں برس کے اختتام تک اسے مکمل کر لیا جائے گا۔ کربی کے مطابق امریکا کی ڈیٹرینس کی کمٹمنٹس بدستور مضبوط اور قابل اعتبار ہیں۔
اماندا ریوکن (ع ح/ ب ج)