امریکا: خواتین مارچ میں ہزاروں افراد کی شرکت
مختلف امریکی شہروں میں ہزاروں خواتین نے ٹرمپ انتظامیہ اور نسائی بیزاری کے خلاف مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں کے ساتھ انسداد سامیت کے اسکینڈل کی بازگشت بھی سنائی دی۔
خواتین کا تیسرا مارچ
اندازوں کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک لاکھ افراد جمع ہوئے۔ یہ تمام افراد خواتین کے پہلے مارچ کی تیسری سالگرہ کے موقع پر جمع ہوئے۔ پہلے مارچ کا انتظام ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے اگلے دن کیا گیا تھا۔ اس مارچ کو ویتنام کی جنگ کے خلاف نکالی گئی احتجاجی ریلیوں کے بعد سب سے بڑا مارچ قرار دیا گیا تھا۔
سارے امریکا میں مارچ
ہفتہ بیس جنوری کو دیگر امریکی شہروں بشمول لاس اینجلس، سان فرانسیسکو اور ڈینور میں بھی خواتین کے مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ مارچ میں کئی شرکاء حال ہی میں سپریم کورٹ کے جج بریٹ کاوانا کی تعیناتی کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے۔ کاوانا پر ایک خاتون نے اسکول کے ایام میں جنسی زیادتی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
امریکا کے علاوہ دنیا کے بعض ممالک میں بھی مظاہرے
امریکا سے باہر کی دنیا میں بھی چھوٹی نوعیت کی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ جن شہروں میں ایسی ریلیاں نکلیں، اُن میں کنیڈین شہر ٹورانٹو، جرمن دارالحکومت برلن اور اطالوی مرکزی شہر روم خاص طور پر نمایاں ہیں۔ لندن میں بھی ایسی ہی ایک ریلی نکالی گئی۔
سامیت مخالف تنازعہ
امریکا میں گزشتہ نومبر سے سامیت مخالف تنازعے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس کا تعلق خواتین مارچ کی بانی ٹیریزا شُوک کی اپنی تحریک کی دو خواتین پر الزامات ہیں۔ ان میں ایک لنڈا سارسُر ہیں اور دوسری ٹامیکا میلوری ہیں۔ سارسُر فلسطینی امریکی ہیں اور اسرائیل کی ناقد ہیں۔ میلوری امریکا میں لوئی فاراخان کی تحریک نیشن آف اسلام سے دوری اختیار کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی ابھرتی لیڈر
حال ہی میں امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کے لیے منتخب ہونے والی الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹز کو ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک ابھرتا ستارہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ ایوان نمائندگان کی رکنیت حاصل کرنے والی سب سے کم عمر ترین رکن ہیں۔ یہ خاتون اپنے حلقے میں اے او سی (AOC) کی عرفیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے آبائی شہر نیویارک سٹی کے مارچ میں شرکت کی۔