امریکا داعش کے خاتمے تک شام میں موجود رہے گا، وائٹ ہاؤس
5 اپریل 2018وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شام میں داعش ابھی بھی محدود پیمانے پر موجود ہے جسے اتحادی افواج مکمل طور پر ختم نہیں کر سکی ہیں۔ بیان کے مطابق امریکا اس حوالے سے اپنے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ مستقبل کے پلان کے حوالے سے مشاورت جاری رکھے گا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری کیا گیا یہ بیان امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹیل کے اس بیان سے مطابقت رکھتا ہے جس میں انہوں نے شام میں گزشتہ چند سالوں کے دوران امریکا کی حاصل کی گئی عسکری کامیابیوں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے خیال میں مشکل ترین مرحلہ اب طے کیا جا چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ اختتام ہفتہ سامنے آنے والے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے شام سے اپنے فوجی دستے بہت جلد واپس بلانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پھر منگل چار اپریل کو صدر ٹرمپ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا ، ’’شام میں یہ مشن ہمارے ملک کے لیے نہایت مہنگا ثابت ہو رہا ہے جبکہ اس سے ہمارے مقابلے میں دوسرے ممالک کو زیادہ مدد مل رہی ہے۔‘‘
’دیر پا جنگ بندی کی کوشش جاری رہے گی‘
مشرق وسطیٰ میں قتل عام بند کیا جائے، پوپ فرانسس کا مطالبہ
ٹرمپ کے اس بیان کے بعد شام میں امریکا کے کردار کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ ان میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب صدر ٹرمپ نے امریکی ریاست اوہائیو میں کہا کہ امریکا جلد ہی شام سے اپنے دستے واپس بلا لے گا، ’’وہاں اب دوسرے لوگ معاملات دیکھیں۔ ‘‘ ٹرمپ کے مطابق امریکا نے اب سے تین ماہ قبل تک مشرق وسطیٰ میں سات ٹریلین ڈالرز کے اخراجات کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم وہاں اسکول تعمیر کرتے ہیں اور وہ اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ ہم پھر تعمیر کرتے ہیں اور وہ پھر تباہ کر دیتے ہیں۔ ‘‘
یاد رہے کہ شام میں سن 2014 سے امریکا کے دو ہزار سے زائد فوجی ،اتحادی افواج کے ساتھ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔