’امریکا میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا جائے‘ صدارتی امیدوار
8 دسمبر 2015ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان گزشتہ ہفتے کیلیفورنیا میں ہونے والے اُس حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں ایک مسلمان جوڑے نے فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں نے اِس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی ہے۔ پیر کی شام یارک ٹاؤن میں اپنی 55 منٹ کی تقریر میں ٹرمپ نے کہا کہ حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ورلڈ ٹرید سینٹر جیسے مزید حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے ٹرمپ کے اس بیان کو امریکی اقدار کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا رد عمل
وائٹ ہاؤس میں صدر باراک اوباما کے ایک چوٹی کے خارجہ امور کے مُشیر بن روہڈز نے ٹرمپ کے بیانات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،’’ہمارے شہری قوانین میں مذاہب کا احترام اور مذہبی آزادی شامل ہے‘‘۔ ری پبلکن سیاستدان ٹرمپ کچھ عرصے سے نہایت بے باکی سے مسلمانوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ پیرس کے دہشت گردانہ حملوں اور اب کیلیفورنیا میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے تازہ واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف دیے جانے والے بیانات پر امریکی مسلم برادری سمیت دیگر سیاسی حلقوں میں بھی ناخوشگواری کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نائن الیون کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد انہوں نے نیو جرسی کے کچھ علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں خوشی منانے والے افراد کو دیکھا تھا جن میں اچھی خاصی تعداد میں عرب نژاد امریکی مسلمان بھی شامل تھے۔
امریکی سیاسی حلقوں کی مذمت
ٹرمپ کے تازہ ترین بیانات نے ڈیمو کریٹس کے ساتھ ساتھ خود ری پبلکنز کے حلقوں میں بھی کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر مائکرو بلاگنگ ويب سائٹ ٹوئٹر پر ایسے ری پبلکن سیاستدانوں نے ٹرمپ پر تنقید کی ہے جو صدارتی الیکشن کی مہم میں بطور امیدوار شامل ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی ریاست فلوریڈا کے سابق گورنر جیب بُش نے اپنی ٹوئیٹ ميں یہ پیغام پوسٹ کیا،’’ٹرمپ کی پالیسیوں کی پیشکش سنجیدہ نہیں ہے‘‘۔
اُدھر صدارتی الیکشن کی اہم ترین ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،’’یہ طعنہ زنی، تعصب اور معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے‘‘۔ کلنٹن نے کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات سے کُچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک اور ٹوئیٹ میں کلنٹن لکھتی ہیں،’’ اس سے ہماری زندگیاں مزید غیر محفوظ ہوجائیں گی‘‘۔
کلنٹن کے ایک سیاسی رفیق اور ڈیموکریٹ سیاستدان مارٹن او مالے نے ٹرمپ کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں’فاشسٹ اور جذبات انگیز‘ قرار دیا۔
ٹرمپ کے بیان پر مسلم دنیا میں برہمی
اُدھر مسلم دنیا میں ٹرمپ کے بیانات پر سخت رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا نے منگل کو ٹرمپ کے مسلمان مخالف بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں تعصب پھیلانے والا سیاسی لیڈر قرار دیا اور کہا ہے کہ ان کے بیانات تشدد کو ہوا دینے کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان کی معروف ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ آسما جہانگیر نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا بیان اتنا لغو اور مضحکہ خیز ہے کہ وہ اس پر رد عمل ظاہر کرنا بھی پسند نہیں کرتیں۔ اُن کے بقول،’’امریکی صدر بننے کا امیدوار کوئی سیاسی لیڈر کس طرح ایسے جہالت اور تعصب پر مبنی بیانات دے سکتا ہے۔ ٹرمپ کا بیان پاکستان کے کسی جاہل اور متعصب مُلا کے بیان کا مقابلہ کرتا ہے جو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذمت کرتا رہتا ہے۔ ہم امریکا جتنے ترقی یافتہ نہیں پھر بھی ہم نے آج تک کسی ایسے شخص کو صدارتی منصب کے لیے منتخب نہیں کیا‘‘۔
پاکستان کی علماء کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے بيانات تشدد کو ہوا دینے کے مترادف ہیں۔ انہوں نے کہا،’’ اگر کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین جنگ جاری ہے تو ہم اُس کی مذمت کرتے ہیں۔ تو آخر کسی امریکی کے ایسے بیان کی مذمت کیوں نہ کی جائے؟۔