امریکا میں نسوانی ختنے کے خطرات میں دوگنا اضافہ
6 فروری 2015اس رپورٹ کے مطابق ختنے کے خطرات سے دو چار امریکی لڑکیوں اور خواتین کی تعداد 2000 ء کے مقابلے میں دوگنا اضافے کے ساتھ نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔ یہ مطالعہ آبادیاتی علوم کے ماہر اور محققین نے کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایسی امریکی خواتین کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
جمعے کو دنیا بھر میں ’ زیرو ٹالرنس فار فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ FGM منایا گیا۔ اس موقع پر امریکا جیسے ترقی یافتہ معاشرے کے بارے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کسی اچھنبے سے کم نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں لڑکیوں اور خواتین کے ختنے کی فرسودہ روایت کی موجودگی اور اس کے خطرات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہاں تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2000ء سے 2013 ء کے درمیان افریقی ممالک سے امریکا آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ خواتین یا لڑکیوں کے جنسی اعضاء کو بہیمانہ طریقے سے کاٹ دینے کی فرسودہ روایت زیادہ تر افریقی ممالک میں ماضی کی طرح اب بھی رائج ہے۔
امریکا میں قائم ادارے پاپولیشن ریفرنس بیورو پی آر بی کی جینڈر پروگرام کی ڈائریکٹر شارلٹ فلڈ من جیکبس اس رپورٹ کی مصنفہ ہیں۔ وہ اپنی رپورٹ میں کہتی ہیں، ’’ہم نے نسوانی ختنے کی شکار خواتین کے اعداد و شمار اس لیے شائع کیے ہیں کہ پالیسی ساز اس کے خلاف کوئی فیصلہ کریں۔‘‘ شارلٹ نے کہا ہے کہ اس زیادتی کی شکار لڑکیاں اور خواتین کہاں اور کتنی تعداد میں ہیں، اس بارے میں ان کی رپورٹ نہایت تشویشناک ہے۔
فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ FGM کے عمل میں لڑکیوں یا خواتین کے جنسی اعضاء کے بیرونی حصے کو یا تو مکمل یا جزوی طور پر کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے۔ اس فرسودہ روایت کو بہت سے معاشروں میں قبل از ازدواج ایک ضروری رسم تصور کیا جاتا ہے۔ جراحی کا یہ عمل لڑکیوں اور خواتین کے لیے گہرے نفسیاتی اور شدید جسمانی نقصانات کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات اس عمل کے سبب لڑکی یا عورت کی جان بھی چلی جاتی ہے۔
یہ روایت سب سے زیادہ افریقی اور وسطی ایشیائی ممالک میں رائج ہے۔ حالانکہ زیادہ تر اُن افریقی ممالک میں جہاں یہ رسم چلی آ رہی ہے، سرکاری طور پر اس پر پابندی عائد ہے۔
پاپولیشن ریفرنس بیورو پی آر بی کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا میں نسوانی ختنے کے بارے میں شعور بیدار کرنے اور اس بارے میں تشویش میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ امریکا میں 1996ء میں اس رسم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور 2012 ء میں ایک قانون پاس کیا گیا تھا جس کے تحت کسی لڑکی کو نسوانی ختنے کی غرض سے امریکا سے باہر لے جانے کےعمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔
جمعرات کو نیو یارک اور ٹیکساس میں امریکی نمائندوں نے’ زیرو ٹالرنس فار فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ FGM ایکٹ 2015 ء متعارف کروایا جس کے تحت وفاقی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس جیسا قانون ملکی سطح پر نافذ کرے تاکہ اس بہیمانہ عمل کے خطرات کی شکار لڑکیوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔