’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘
23 جنوری 2019ابھی وہ جنرل اسمبلی ہال کے روسٹرم پر اپنی تقریر شروع کر ہی پائے تھے کہ اچانک جنرل اسمبلی کی پریس گیلری میں سے جنرل ضیاء مردہ آباد، مارشل لا مردہ آباد اور پاکستان میں جمہوریت بحال کرو کے نعرے تڑ تڑ لگنے شروع ہوئے۔ اس پر جنرل ضیاء کو ہکا بکا ہوکر کچھ منٹ اپنی تقریر روکنا پڑی تھی۔ یہ نعرے بازی جتنی تیزی سے ہوئی، اتنی ہی تیزی سے اقوام متحدہ کے سکیورٹی اہلکار پریس گیلری میں ایک لمبے تڑنگے نعرے لگاتے ہوئے نوجوان کو دبوچ کر گیلری سے باہر لے گئے تھے۔ پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف نعرے لگانے والا یہ نوجوان سابق فوجی کیپٹن شفقت خان تھا۔ شفقت خان اس وقت امریکا میں بائیں بازو کے پاکستانی سیاسی منحرفین کی مارشل لا مخالف اور جمہوریت نواز تحریک پاکستان پروگریسیو الائنس کا سرگرم رکن تھا۔
امریکا میں دنیا بھر کے سیاسی منحرفین کی طرح پاکستانی سیاسی منحرفین کی کہانی بھی بہت پرانی ہے اور پاکستان میں ہر دور حکومت کی کارگزاریوں کے حوالے سے نئی بھی۔ پھر وہ سندھی، بلوچ، پشتون، مہاجر، قوم پرست ہوں کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی قائم کردہ ’ساؤتھ ایشینز اگینسٹ ٹیررازم اینڈ فار ڈیموکریسی‘ (ساتھ)، پروگریسیو پاکستان الائنس ہو کہ جئے سندھ قومی محاذ، یہ سبھی امریکا میں سرگرم ہیں۔
فرینڈز آف بلوچستان ایسوسی ایشن سمیت بلوچ قوم پرستوں کی ایک سے زائد تنظیمیں موجود ہیں، جن میں پاکستانی اور ایرانی بلوچ شامل ہیں۔ واشنگٹن کی سڑکوں پر دوڑتی وہ ٹیکسیاں بھی نظر آتی ہیں، جن پر ’فری بلوچستان‘ اور ’فری کراچی‘ لکھا ہوا ہے۔
لیکن پاکستان سے پہلی نسل میں، جن سیاسی منحرفین کے نام آتے ہیں، وہ تین لوگ تھے۔ ان تین شخصیات کو پاکستان میں سیاسی و انقلابی افکار کی ’سہ مورتی‘ کہا جاتا ہے۔ وہ تین لوگ تھے اقبال احمد، اعجاز احمد اور فیروز احمد، جو انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں امریکا پہنچے تھے۔ ان تینوں نے پاکستانی منحرفین یا یاکستانی انقلابی سیاست و دانش میں دلچسپی رکھنے والوں کی نسلوں کو متاثر کیا۔ اقبال احمد تو دیگر ویتنام جنگ مخالف امریکیوں کے ساتھ مشہور مقدمے ’’ہیرسبرگ سیون‘‘ کے سابقہ ملزم بھی رہے، جس میں ان پر سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر کو اغوا کرنے کا الزام تھا۔
اسی طرح فیروز احمد سندھی تارکین وطن کی شمالی امریکا میں تنظیم ’سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا‘ یا سانا کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ ضیاء الحق کی آمریت کے دنوں میں پاکستان فورم نام سے ایک جریدہ بھی نکالا کرتے تھے۔ وہ قومیتوں کے مسئلے پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ’سانا‘ ان کی یاد میں سندھ میں طلبہ کے لیے ایک اسکالرشپ بھی قائم کیے ہوئے ہے۔
لیکن ایک اور معروف سیاسی منحرف اور پنجاب کے دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز کا کہنا ہے کہ سیاسی منحرفین کی یہ ’سہ مورتی‘ اقبال، فیروز اور اعجاز ، سیاسی جلاوطن نہیں بلکہ تعلیمی و تدریسی مقاصد کے لیے امریکا آئے تھے۔
امریکا کی طرف پاکستان سے سیاسی منحرفین کی بڑی تعداد کی آمد ذوالفقار علی بھٹو اور پھر فوجی آمر ضیاء الحق کے زمانے میں شروع ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ حکومت میں سیاسی جبر کے متاثرین کی اچھی خاصی تعداد امریکا پہنچی۔ یہ تعداد مذہبی جبر سے بھاگ کر آنے والے احمدیہ کمیونٹی کے لوگوں کے علاوہ تھی۔
بھٹو کی حکومت میں بلوچ سیاسی منحرفین میں ایک نمایاں نام ملک توگی بھی ہیں۔ ملک توگی، جو پیدا تو ایرانی بلوچستان میں ہوئے تھے لیکن وہ جوان کراچی میں ہوئے۔ وہ زمانہ طالب علمی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے، پھر بلوچستان میں بھٹو کے زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے خاتمے تک بلوچ قوم پرست تحریک سے جڑ گئے تھے۔ ملک توگی بلوچستان پر فوجی آپریشن کے وقت ایرانی بلوچستان چلے گئے تھے۔ پاکستانی بلوچستان میں فوجی آپریشن کی کارروائیوں میں ایرانی پائلٹوں کی کوبرا ہیلی کاپٹروں سے کارروائی اب ایک کھلا راز ہے۔ تو ملک توگی نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے امریکا میں شاہ ایران کے جبر کے خلاف سیاسی پناہ طلب کی تھی، جو ان کو دے دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ شاہ ایران امریکا کا زبردست اتحادی تھا۔
اسی طرح کئی مواقع پر نیویارک میں پاکستانی پشتون سیاسی منحرفین اور افغان قوم پرست سیاسی منحرفین کی ایک تعداد کچھ ثقافتی اور سیاسی تقریبات مشترکہ مناتی ہے۔ ان تقریبات میں یوم پختونستان اور یوم افغانستان بھی شامل ہے۔ اسی طرح پشتون سیاسی منحرفین ہوں کہ بہتر مواقع کے لیے آنے والے تارکین وطن، ان کی ایک ثقافتی اور غیر سیاسی تنظیم ’خیبر سوسائٹی‘ ہے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے نیویارک میں ’باچا خان امن کانفرنس‘ ایک اہم اجتماع رہا ہے۔
جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر ضیاء مخالف سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد امریکا آئی۔ ان میں مشہور صحافی اور شاعر عباس اطہر بھی شامل تھے، جنہوں نے ایک جریدہ نکالا، جو پاکستان اسمگل ہو کر جاتا تھا۔
ضیاء الحق حکومت کے خاتمے کے بعد بینظیر اور نواز شریف دور حکومت میں ایم کیو ایم کے کارکنوں اور سیاسی لیڈروں کی بڑی تعداد امریکا پہنچی۔ ضیاء الحق کے دنوں میں الطاف حسین اور ان کے ساتھ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھنے والے ان کے کئی ساتھی امریکا آئے تھے۔ الطاف حسین کچھ دن شکاگو کے مضافات میں ٹیکسی بھی چلاتے رہے تھے۔
فوجی آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں سیاسی منحرفین کی بہت بڑی تعداد امریکا پہنچی، جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کے لوگ بھی تھے اور پی پی پی کے کارکن بھی، سندھی، بلوچ، پشتون قوم پرست بھی تھے اور ان کے آمرانہ حکومتی جبر سے متاثرہ عام اور مذہبی لوگ بھی۔ خاور مہدی سمیت کئی صحافی بھی آئے۔ امریکی شہری اور سندھی قوم پرست ڈاکٹر صفدر سرکی بھی انہی کے دور حکومت میں پاکستان کے دورے کے وقت فوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر بیس ماہ تک لاپتہ رہا تھا۔
پرویز مشرف ہی کے خلاف اور مختاراں مائی کی حمایت میں امریکا میں خواتین نے مشرف مخالف مظاہرہ کیا۔ مشرف کے خواتین کے بارے میں بیان اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ڈاکٹر آمنہ بٹر اور ان کی ساتھیوں نے ’ایشین امریکن اگینسٹ ہیومن رائٹس ابیوزز (انا)‘ کے پلیٹ فارم سے تحریک چلائی۔ اسی تنظیم نے مختاراں مائی اور ڈاکٹر شازیہ خالد کو امریکا مدعو کیا۔ ’انا‘ کی خواتین اور ان کے ساتھیوں نے مشرف کی نیویارک میں ایک ہوٹل میں تقریب کے دوران زبردست احتجاج بھی کیا تھا۔
پاکستان کی شیعہ اقلیت کے لوگ ہوں کہ ہزارہ، پاکستانی حکومتیں ان کی سرگرمیوں کو بھی سیاسی منحرفین کی سرگرمیوں میں شمار کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں ’ہزارہ تشدد‘ کے خلاف امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کے سامنے احتجاج منظم کرنے والے لیاقت علی، جب طویل عرصے بعد پاکستان گئے، تو ان کو کراچی ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ کئی روز وہ دبئی میں اپنے امریکی پاسپورٹ پر پاکستان ویزے کی تصدیق کے لیے انتظار کرتے رہے۔
مشرف کے بعد کی حکومتوں میں بھی سیاسی منحرفین کی امریکا میں آمد جاری رہی۔ پھر وہ اپنے لاپتہ بھائی و دیگر بلوچ گمشدگان کی رہائی کی تحریک میں شامل فرزانہ بلوچ ہوں کہ شعیب عادل، رضا رومی ہوں کہ دیگر صحافی، شاعر ہوں یا بلاگر۔
عدلیہ کی تحریک کے دنوں میں پرویز مشرف کے خلاف اور پھر ان کی سبکدوشی تک امریکا میں پاکستانی سیاسی منحرفین چاہے تارکین وطن ہوں یا امریکی پاکستانیوں کی طرف سے چلائی جانے والی مسلسل تحریک، یہ ایک بڑا باب ہے۔ اس تحریک میں نعرے اور شاعری ایک الگ موضوع ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔