امریکا نے سعودی عرب اور امارات کو ہتھیاروں کی فروخت روک دی
28 جنوری 2021بائیڈن انتظامیہ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اربو ں ڈالر کے ہتھیاروں کے فروخت کے سودے پر عارضی طور پر روک لگا رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک افسر کے مطابق یہ'معمول کی انتظامی کارروائی‘ ہے کیوں کہ ہر نئی انتظامیہ رخصت پزیر انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے ہتھیاروں کے بڑے سودوں کا جائزہ لیتی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کے فروخت پر عارضی طور پر روک لگانے سے بائیڈن انتظامیہ کویہ یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ آیا ”امریکی ہتھیاروں کی فروخت ایک مضبوط، قابل ہمکار اور باصلاحیت سکیورٹی پارٹنرز بنانے کے ہمارے اسٹریٹیجک مقاصد کو پورا کرتی ہے۔"
جن ہتھیاروں کی فروخت پر روک لگائی گئی ہے ان میں متحدہ عرب امارات کو تیئیس ارب ڈالر کے ایف 35 جنگی طیاروں کی سپلائی کا معاہدہ شامل ہے۔ یہ سودا نومبر میں صدارتی انتخابات کے بعد صدر ٹرمپ کے دور اقتدار کے بالکل آخری دنوں میں کیا گیا تھا۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے کا اثر دیگر کن سودوں پڑے گا کیوں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے خلیجی ملکوں کے ساتھ بہت سارے سودے کیے تھے۔ 29 دسمبر کو امریکی محکمہ خارجہ نے سعودی عرب کو 290 ملین ڈالر کے تین ہزار جدید ترین گائیڈیڈ میزائل بھی فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔
جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں جاری جنگ کو روکنے کے مقصد سے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی سپلائی پر روک لگادیں گے۔ سابقہ امریکی انتظامیہ نے خلیجی ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں زیاہ نرم رویہ اپنایا تھا۔
امریکی کانگریس نے ہتھیاروں کے بعض سودوں کو منظوری دینے سے انکار کردیا تھا جس سے ناراض ہوکر ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کر دیا کہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت قومی ایمرجنسی ہے لہذا اس پر کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی عمل درآمد ہو سکتا ہے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے اس وقت کہا تھا”صدر ٹرمپ قانون میں ایک نقص کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کانگریس ان کے فیصلے کو مسترد کردے گی... سعودی عرب کو یمن پر گرانے کے لیے بم فروخت کرنے کی کوئی نئی ہنگامی ضرورت نہیں ہے اور ایسا کرنا وہاں انسانی بحران کو مزید ابتر کرنا ہوگا۔"
ڈیموکریٹ اراکین کے علاوہ دیگر مشاہدین بشمول واشنگٹن میں موجود تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی نے بھی ہتھیاروں کے فروخت کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے خطے میں تصادم کو مزید ہوا ملے گی۔
بائیڈن انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ دیگر کن سودوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی)