امریکہ، افغانستان میں مزید فوج بھیجنے پر غور کر رہا ہے
26 نومبر 2008طالبان کی جانب سے بڑھتی ہوئی مسلح مزاحمت کے پیش نظر اس بات کے قومی امکانات دکھائی دیتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں پہلے سے موجود اپنے فوجیوں کی مدد کے لئے مزید 20 ہزار فوجی وہاں بھیج سکتا ہے۔
اس حوالے سے رابرٹ گیٹس نیٹو کے رکن ممالک سے بھی افغانستان میں اپنے فوجیوں کے کی تعداد میں اضافے کے لئے درخواست کرتے رہے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان سے لڑائی میں مصروف امریکی فوج کو تیس ہزارتک سپاہیوں کی افرادی کمک بھی بھیجی جائے گی۔
امریکی حکام کے مطابق نو منتخب صدر باراک اوباما بھی کئی بار افغانستان میں امریکی دستوں کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے بیانات دے چکے ہیں۔ نومنتخب صدر بارہا یہ کہ چکے ہیں کہ وہ عراق میں تعینات فوجیوں کی تعداد کم کریں گے اور افغانستان میں ان کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ تاہم باراک اوباما اس وقت جس مسئلے پر اپنی سب سے زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں وہ امریکی مالیاتی بحران ہے۔ شاید اسی لئے موجودہ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو جن کا تعلق اوباما کی اپنی جماعت کی بجائےصدر بش کی ریپبلکن پارٹی سےہے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کے لئے کہا جاسکتا ہے۔
باراک اوباما نے عدم استحکام کے شکار عراق سے آئندہ 16 مہینوں میں امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے عزم کا اظہار کر رکھا ہے۔ کئی نشریاتی اداروں نے بغیر نام ظاہر کئے متعدد ذرائع کا حوالے دیتے ہوئے گیٹس کے عہدے کی مدت میں توسیع کی خبر کی تصدیق بھی کردی ہے۔
دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اتحادی فوج نے متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ صدرکرزئی نے کابل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ رکنی وفد سے ملاقات کے دوران مطالبہ کیا کہ عالمی برادری افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور غیر ملکی فوج کے انخلا کی کوئی ڈیڈ لائن مقرر کرے۔
افغان صدر نے کہا کہ یہ جنگ سات سال سے جاری ہے اور افغان عوام آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ طالبان ایک چھوٹی سی قوت ہونے کے باوجود اپنا وجود کس طرح قائم رکھے ہوئے ہیں اور پھر خونریزحملے کرنے میں بھی کیسےکامیاب ہو جاتے ہیں۔
حامد کرزئی نے کہاکہ کابل یہ جاننا چاہتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کب تک لڑی جائے گی۔ اگر نیٹو کو اس بات کا علم نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کب تک لڑی جائے گی تو افغان حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ وہ اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرے۔