1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ اور افغانستان میں پارٹنر شپ معاہدہ نا تمام

2 دسمبر 2011

جرمن شہر بون میں اگلے پیر سے شروع ہونے والی افغانستان کانفرنس کے لیے کابل اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنر شپ معاہدہ خاصا اہم تھا لیکن اس پر فریقین متفق نہیں ہو سکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13LB8
ویسٹر ویلے اور حامد کرزئیتصویر: dapd

مغربی اقوام کے لیے جرمن شہر بون میں شروع ہونے والی افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کانفرنس امکاناً ایک ایسا پلیٹ فارم بن سکتا تھا جوجنوبی ایشیا کی دو اقوام کے درمیان تعلقات کے فروغ کا باعث ہوتا، لیکن پاکستان کی جانب سے نیٹو حملے کے بعد کانفرنس کے بائیکاٹ کے اعلان سے بہت سے معاملات ادھُورے رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان تنازعے کے پس منظر میں موجود اہم ملک کی عدم شرکت کے بعد بعض سفارتکاروں نے اس کانفرنس کی حیثیت پر بحث شروع کر دی ہے۔

دوسری جانب اس کانفرنس کے فریم ورک کے لیے اہم افغان امریکی اسٹریٹیجک پارٹنر شپ معاہدے کو بھی حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ بعض ذرائع کے مطابق اب اس اہم معاہدے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے واشنگٹن اور کابل حکومتوں کے دن یا ہفتے نہیں بلکہ مہینے درکار ہیں۔ سفارتکاروں کے خیال میں کابل اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کی ڈیل طے ہو جاتی تو دیگر اقوام کو بھی افغانستان کی کمزور اقتصادیات کو مضبوط کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ اس اسٹریٹیجک پارٹنر شپ ڈیل کی جانب فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کی نگاہیں بھی لگی ہوئی تھیں۔

بون کانفرنس کے حوالے سے افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لودین کا کہنا تھا کہ بون کانفرنس میں وہ بین الاقوامی برادری سے مالی امداد طلب کرنے نہیں جا رہے بلکہ ان سے پولیٹیکل کومٹمنٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ افغان قوم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہے اور وہ اس عمل کی حمایت کریں گے۔ اسی طرح کابل میں مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ بون کانفرنس سے افغان حکام کو ایک پیغام یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ وہ سن 2014 سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں وگرنہ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلاء کے بعد والی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔ ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے بون کانفرنس کے حوالے سے بتایا کہ بون کانفرنس کا ایک پیغام انتہاپسند قوتوں کے لیے بھی ہے کہ افغانستان میں بین الاقوامی برادری جو فرائض انجام دے رہی ہے، وہ ابھی پورے نہیں ہوئے۔

Afghanistan Kabul Waffe
افغانستان کو بین الاقوامی فوجوں کے انخلا کے موقع پر تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گاتصویر: AP

پانچ دسمبر کو ہونے والی بون کانفرنس کے لیے کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ ان کی آمد بھی اہم ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں اور کسی بڑی پیش رفت کے بغیر بھی یہ کانفرنس میڈیا کے لیے بہرحال اہم ہو گی۔ بون کانفرنس میں جن ملکوں کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے، ان میں ایران اور مغربی دفاعی اتحاد کے رکن ملکوں کے علاوہ روس اور چین بھی شامل ہیں۔

بون کانفرنس کے حوالے سے ایسے اشارے بھی سامنے آئے ہیں کہ انتہاپسند طالبان کے کچھ نمائندے بھی جرمنی پہنچ کر کانفرنس کے شرکاء کو حیران کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو افغان صدر حامد کرزئی کی مصالحتی کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں