امریکہ اور شام کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ
29 اکتوبر 2008موجودہ کشیدہ حالات کے پیش نظر، امریکی سفارتخانے کے حکام نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ عوام کے لئے اس کے سفار ت خانہ کو بند بھی کیا جاسکتا ہے۔
امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر شام میں موجود امریکی شہریوں کے لئے یہ پیغام ہے۔ ’’ اپنی ذاتی حفاظت پر نظر ثانی کریں اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے دور رہیں۔‘‘
گُزشتہ اتوار کے روز عراقی سرحد کے نزدیک امریکی فوجیوں نے شام کے ایک علاقے پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں چند بچوں اور خواتین سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوگئے۔
شام نے امریکی حملے کے خلاف اپنا زبردست ردّ عمل ظاہر کیا۔ شامی حکام نے دارالحکومت دمشق میں واقع ایک امریکی سکول اور ثقافتی مرکز کو بند کردیا ہے۔ منگل کے روز شام نے رسمی طور پر اقوام متحدہ سے امریکی حملے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کی سرزمین پر حملے کو کھلی جارحیت اور دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، بان کی مون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام، احتجاجی خط بھی روانہ کئے گئے۔ بان کی مون کے دفتر کے ترجمان، فرحان حق نے شام کی طرف سے احتجاجی خط موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بغور مطالعہ کرکے سلامتی کونسل کے رکن ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔
دوسری جانب عراقی حکام نے شام پر امریکی حملے کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ تحقیقات کے نتائج سے شامی حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔ عراق کے قومی ذرائع ابلاغ مرکز نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق اپنے ہمسایہ ملک، شام کو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اس کی تمام تفصیلات اور نتائج سے آگاہ کرے گا۔
عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے شام پر امریکی حملے کی مزمت کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی سرزمین کو پڑوسی ممالک پر حملے کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ نوری المالکی کے اس محتاط بیان سے امریکی حمایت یافتہ عراقی حکومت کی مجبوریوں کا پتہ چلتا ہے۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملے میں القاعدہ کے لئے کام کرنے والا ایک سمگلر ہلاک ہوگیا ہے جبکہ شامی حکومت نے اس دعوے کو جھوٹ قرار دیا ہے۔