امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی
6 اکتوبر 2011بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں اکثر اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں مگر اب وہ دوبارہ درست سمت کی جانب گامزن ہیں۔
بھارت اور افغانستان کے موجودہ اتحاد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں خود مختار ملک ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم سب ایک ہی خطے میں ہیں اور ہم خطے میں امن و استحکام کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس مقصد کے لیے مل جل کام کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولن کی جانب سے اس الزام کے بعد ہوا تھا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا بازو ہے۔ اس سے پہلے امریکی حکام اپنے بیانات میں کہہ چکے تھے کہ گزشتہ ماہ کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو کے ہیڈکوارٹرز پر حملے میں حقانی نیٹ ورک ملوث تھا۔
اس معاملے میں شدت اس وقت آئی جب ایک اعلیٰ امریکی ری پبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ امریکی قانون ساز ہر صورت میں افغانستان میں تعینات اپنی افواج کے دفاع کو یقینی بنائیں گے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے اندر بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے امکان پر غور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اس بات کو امریکہ کی طرف سے جنگ کی دھمکی قرار دیا گیا اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں 29 ستمبر کو کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک کی تمام اہم بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ ملکی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں گے۔
ادھر امریکہ کے رویے میں بھی نرمی دیکھی گئی ہے اور امریکی حکام نے پاکستان کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ بدھ کو وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے امریکی دفتر خارجہ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’میں اس بات پر کسی سے اختلاف نہیں کرتی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات انتہائی دشوار اور پیچیدہ ہیں کیونکہ درحقیقت یہ بات درست ہے۔ تاہم میرا پختہ یقین ہے کہ مشکلات کے باوجود ہمیں مل جل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘
محکمہ دفاع یعنی پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جارج لٹل نے کہا کہ وزیر دفاع لیون پینیٹا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت بشمول آئی ایس آئی کے بعض عناصر حقانی نیٹ ورک کو اعانت اور تعاون فراہم کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
وزیر خارجہ کلنٹن کا مزید کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے طویل المیعاد مفادات ہیں جو اس وقت دہشت گردی پر مرتکز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی نسبت پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ سے زیادہ خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ خارجہ حقانی نیٹ ورک کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے عمل پر حتمی غور کر رہا ہے۔ فی الوقت تنظیم کے صرف اعلیٰ رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل