1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی کوریا

'امریکہ ایشیا میں اپنی فوجی برتری قائم کرنا چاہتا ہے'

4 جولائی 2022

شمالی کوریا نے کہا ہے کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ مل کر دراصل اس خطے پر اپنی فوجی اثرات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ اور پیونگ یانگ کے جوہری ہتھیاروں کو روکنے کے اقدامات تو محض ایک بہانہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4DbNa
Spanien | Gipfeltreffen Japan, USA, und Südkorea in Madrid
تصویر: Yomiuri Shimbun/AP Photo/picture alliance

کوریائی سینٹرل نیوز ایجنسی (کے سی این اے) نے اتوار کے روز بتایا کہ شمالی کوریا نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں، جاپان اور جنوبی کوریا، پر الزام لگایا کہ یہ ہند۔ بحرالکاہل میں "فوجی برتری" حاصل کرنے کے لیے پیونگ یانگ کو نشانہ بنارہے ہیں۔

کے سی این اے کے مطابق شمالی کوریا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ "حقائق سے یہ واضح طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ شمالی کوریا سے خطرے کے بارے میں افواہیں پھیلانے کے پیچھے امریکہ کا مقصد کیا ہے۔ وہ دراصل ایشیا بحرالکاہل خطے پر اپنی فوجی برتری حاصل کرنے کے لیے اسے جواز بنانا چاہتا ہے۔"

 ترجمان نے مزید کہا کہ موجودہ صورت حال اس بات کی شدید متقاضی ہے کہ تیزی سے بگڑتے ہوئے سکیورٹی ماحول کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کے دفاع کو سرگرم کردیا جائے۔"

شمالی کوریا کے ترجما ن کا یہ بیان امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے رہنماوں کی جانب سے نیٹو سربراہوں کی تین روزہ سمٹ کے دوران دیے گئے ان بیانات کے بعد آیا ہے جن میں ان رہنماوں نے شمالی کوریا کا مقابلہ کرنے کے لیے"تدارکی صلاحیتیوں" کو مستحکم کرنے سے اتفاق کیا۔

شمالی کوریا نے الزام لگایا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہند بحرالکاہل خطے میں نیٹو کی طرح کا ایک فوجی اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔خیال رہے کہ میڈرڈ سمٹ کے آخری دن امریکی صدر جو بائیڈن نے جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا اور جنوبی کوریا کے صدر یون سک ایول سے ملاقاتیں کیں۔

Nordkorea | Maßnahmen gegen Coronavirus in Pjöngjang
تصویر: KCNA/REUTERS

شمالی کوریا نے امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان اتحاد کی نکتہ چینی کی

میڈرڈ نیٹو سمٹ کے آخری دن امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے رہنماوں کی میٹنگ اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل رہی کہ امریکہ اپنے ان دونوں بڑے اتحادیوں جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

ان رہنماوں کی میٹنگ کے بعد وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے "پورے ایشیا بحرالکاہل میں سہ فریقی تعاون کو بڑھانے" کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ"میٹنگ میں بالخصوص شمالی کوریا کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے غیر قانونی ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگراموں سے پیدا شدہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔"

نیٹو نے اس فوجی اتحاد کے لیے سن 2030 تک جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے اس میں پہلی مرتبہ چین کو بھی نئے اسٹریٹیجک نظریہ میں اپنے مفادات کے لیے چیلنج قرار دیا ہے۔

مفادات وابستہ

جنوبی کوریا اور جاپان کے باہمی تعلقات سیاسی تنازعات کی وجہ سے سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ کوریائی جزیرہ نما سن 1910سے  1945 تک جاپان کے قبضے میں تھا۔

جنوبی کوریا کی معیشت چین سے بھی وابستہ ہے کیونکہ بیجنگ سیول کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دوسری طرف جنوبی کوریا امریکہ کا بھی قریبی پارٹنر ہے۔ اس وقت تقریباً 28000 امریکی فوج جنوبی کوریا میں ہیں۔

امریکہ چین کو اپنی طاقت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک سمجھتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دونوں حلیفوں کی مدد چاہتا ہے۔

دوسری طرف شمالی کوریا نے اس سال ریکارڈ تعداد میں میزائل تجربات کیے ہیں۔ ان میں مئی میں کیا گیا اس کا سب سے بڑابین براعظمی میزائل شامل ہے۔

ان تجربات کی وجہ سے تجزیہ کاروں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ شمالی کوریا سن 2017 کے بعد پہلی مرتبہ ایک بار پھر جوہری ہتھیار کا تجربہ کرسکتا ہے۔

امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان 'پیسفک ڈریگن' کے نام سے میزائل کا پتہ لگانے اور اسے ناکارہ بنانے کی ایک مشترکہ مشق اگست میں کرنے والے ہیں۔

 ج ا / ص ز  (روئٹرز، اے پی)