1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ جوہری معاہدے کی بحالی میں رخنہ ڈال رہا ہے، ایران

11 مارچ 2022

ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکہ نئے نئے مطالبات کرکے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کا عمل پیچیدہ بنا رہا ہے۔ انہوں نے تمام فریقین سے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بقیہ حل طلب امور پر توجہ مرکوز کرنے کی اپیل کی۔

https://p.dw.com/p/48KOP
Österreich | Atomgespräche mit Iran in Wien
تصویر: Michael Gruber/AP Photo/picture alliance

ایران جوہری معاہدے کی بحالی میں نئی نئی رکاوٹیں سامنے آرہی ہیں۔ اس معاہدے کو یوکرین کی جنگ سے جوڑنے کی روس کی درخواست کے بعد اب ایران نے الزام لگایا کہ امریکہ نے بعض نئے مطالبات پیش کیے ہیں اور وہ سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کو پیچیدہ بنانے کا کام کر رہا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جن کی بات اہم حکومتی پالیسیوں میں حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے، نے زور دے کر کہا کہ ان کا ملک جوہری ترقی اور علاقی اثرورسوخ جیسے اہم قومی مفادات سے دست بردار نہیں ہوگا۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق خامنہ ای نے کہا کہ ایران پرامن جوہری توانائی سے پیچھے نہیں ہٹے گا تاکہ ترقی جاری رکھی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا جوہری توانائی پر روز بروز انحصار بڑھتا جارہا ہے اور ایران کو جلد یا بہ دیر پرامن جوہری توانائی کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہم نے اس بارے میں آج نہیں سوچا تو کل بہت دیر ہوجائے گی اور اس وقت ہمارے ہاتھ خالی ہوں گے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ ان کا ملک جوہری ترقی جیسے اہم قومی مفادات سے دست بردار نہیں ہوگا
آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ ان کا ملک جوہری ترقی جیسے اہم قومی مفادات سے دست بردار نہیں ہوگاتصویر: IRANIAN LEADER PRESS OFFICE/AA/picture alliance

امریکہ کے نئے مطالبات غیر منطقی، ایران

ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ "امریکہ کی جانب سے کچھ نئے مطالبات کا کوئی منطقی جواز نہیں اور وہ معاہدے پر جلد ا ز جلد پہنچنے کے امریکی موقف سے متصادم ہیں۔"

ایرانی وزیر خارجہ نے گوکہ امریکہ کے نئے مطالبات کی وضاحت نہیں کی تاہم کہا، ''امریکہ اپنے ملک کی رائے عامہ کے دباو کے بہانے رابطہ کار (یورپی یونین) کے ذریعہ ہمیں ہر روز ایک نیا اور مختلف پیغام نہیں دے سکتا۔ اگر امریکہ کو رائے عامہ کا مسئلہ ہے تو ایران کو بھی رائے عامہ کا مسئلہ ہے۔"

اس سے قبل ایرانی سکیورٹی کے اعلی عہدیدار علی شامخانی نے بھی کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے سیاسی فیصلہ سازی کے فقدان کے سبب ویانا  مذاکرات ہر گھنٹے کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔

شامخانی کا کہنا تھا،" ایران کے اصولی مطالبات کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ اور اس کی جانب سے نامناسب پیش کش نیز کسی معاہدے پر اتفاق رائے میں جلد بازی کی کوشش اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک جامع اور مضبوط معاہدے کے حق میں ہی نہیں ہے۔"

روس یہ ضمانت چاہتا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کی فوجی کارروائی کی وجہ سے ایران کے ساتھ تعاون پر کوئی اثر نہ پڑے
روس یہ ضمانت چاہتا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کی فوجی کارروائی کی وجہ سے ایران کے ساتھ تعاون پر کوئی اثر نہ پڑے تصویر: Mikhail Klimentyev/AP/picture alliance

روسی عنصر

امریکہ نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے پر چند دنوں کے اندر پہنچا جاسکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "دراصل اب صرف چند ایک معاملات ہی حل طلب رہ گئے ہیں۔ لیکن ان معاملات کے حل طلب رہ جانے کی اہم وجہ یہ ہے کہ سب سے مشکل معاملات میں سے ہیں۔"

ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ سے یہ تحریری ضمانت چاہتا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کی فوجی کارروائی کی وجہ سے اس پر عائد پابندیوں کا ایران کے ساتھ اقتصادی اور فوجی تعاون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

امریکہ نے روس کے ان مطالبات کو "بے محل" قرار دیا جبکہ فرانس نے متنبہ کیا کہ اس سے جوہری معاہدے کی بحالی کی امیدیں تباہ ہوسکتی ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک ایسے مضحکہ خیز اور بے بنیاد دعوے کرتے ہیں کہ ایران بم بنانے کے کتنا قریب ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ایران کے جوہری توانائی کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ وہ دراصل چاہتے ہیں کہ جب ایرانی قوم کو مستقبل میں جوہری توانائی کی ضرورت ہو تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

خیال رہے کہ سن 2015کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات حتمی مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرنے کے بعد تہران پر مزید پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس معاہدے کی بحالی کی صورت میں ایران کے اپنے جوہری پروگراموں میں تخفیف کے بدلے میں اس پر عائد پابندیوں میں راحت دینے کی بات کہی گئی ہے۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی،روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں