امریکی امداد کے روکے جانے پر، پاکستان میں ملا جلا ردِ عمل
11 جولائی 2011یاد رہے کہ امریکی وزیر دفاع نے حال ہی میں القاعدہ کے نئے سربراہ ایمن الظواہری کے پاکستانی قبائلی علاقوں میں موجود ہونے کے حوالے سے ایک بیان دیا تھا، جس کے جواب میں پاکستان نے کہا تھا کہ امریکہ اس بارے میں اپنی خفیہ اطلاعات پاکستان سے شئیر کرے تا کہ اس ضمن میں کارروائی کی جا سکے۔
دفاعی اور سیاسی امور کے تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے فوجی امداد کے ایک تہائی حصے کا روک لیا جانا در اصل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا ایک حربہ ہے۔ ان کے بقول اس صورتحال کا فوری طور پر تو کوئی خاص اثر نہیں ہو گا لیکن اس کا دیر پا اثر یہ ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستانی فوج کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت مستقبل میں کم ہو سکتی ہے۔
ادھر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی امداد کے رک جانے سے پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی صلاحیت میں کمی واقع نہیں ہوگی۔
انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمان کے مطابق پاکستان کی امداد روکنے کا فیصلہ اچانک سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سی آئی اے میں کشیدگی پچھلے کئی ماہ سے جاری تھی ۔ پاکستان سے سی آئی اے کے سربراہ کا انخلا، ریمنڈ ڈیوس کیس، امریکی اہلکاروں کے ویزوں میں کمی اور ایبٹ آباد آپریشن سمیت بہت سے امور میں دونوں ملکوں میں اختلاف دیکھا جا رہا تھا۔ ان کے بقول پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشرف دور میں طے کی گئی شرائط کی از سر نو تشکیل چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے خلاف کانگریس اور رائے عامہ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی فوجی امداد روکنے کا امریکی فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان کی جمہوری حکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہر حکم ماننے کو ہی بر سر اقتدار رہنے کے لیے ضروری سمجھ رہی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد میں کمی تو کر دی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کے ساتھ اس کا برتاؤ کیسا رہتا ہے۔
راشد رحمان کہتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سمیت عالمی مالیاتی اداروں کو امریکہ کی طرف سے نظریں پھیرنے کا مشورہ مل گیا تو پاکستان کی اقتصادی مشکلات بہت بڑھ سکتی ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اکرم ذکی کہتے ہیں کہ تازہ صورتحال نے پاک امریکہ تعلقات کے طویل المعیاد ہونے کے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے لیکن اس کے مقابلے میں امریکی امداد بہت کم ہے۔وہ بھی اگر روک لی جائے تو پھر پاکستان اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور پاک افغان بارڈر پر پاکستانی افواج میں کمی بھی لائی جا سکتی ہے۔ اکرم ذکی کے مطابق پاکستان میں عام انتخابات قریب ہیں اور پاکستان کی جمہوری حکومت کے لیے رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے امریکہ کی ہر بات ماننا ممکن نہیں ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر ریٹائرڈ حامد سعید اختر نے بتایا کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے فوجی امداد روکنے کا اعلان عارضی ہے۔ دونوں ملکوں کی طرف سے اپنی اپنی شرائط منوانے کے لیے دباو ڈالا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے مابین باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی سفارتی حل کچھ دو کچھ لو کی بنیاد پر تلاش کر لیا جائے گا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امتیاز احمد