صدر ٹرمپ کو پہلی قانونی شکست کا سامنا
29 جنوری 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق نیویارک کی ایک عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا عبوری حکم ان لوگوں کے حوالے سے ہے جو پہلے سے امریکا میں موجود ہیں یا وہ جو راستے میں ہیں۔ اس حکم کے مطابق جن لوگوں کے پاس قانونی ویزا موجود ہے وہ امریکا میں رہ سکتے ہیں۔
خاتون جج این ایم ڈونلی کے مطابق حکم امتناعی کے بغیر اس بات کا ’’واضح خطرہ‘‘ موجود ہے کہ جمعہ کے دن جن ممالک سے متعلق حکم جاری کیا گیا ہے ان ممالک کے مہاجرین اور ایسے شہریوں کو حقیقی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے جن کے پاس قانونی ویزا موجود ہے۔
امریکا کی سول لبرٹیز یونین (ACLU) کے ڈائریکٹر اور یہ مقدمہ عدالت میں لے جانے والے انتھونی ڈی رومیرو کا اس فیصلے کے بعد کہنا تھا، ’’ہماری عدالتوں نے آج بالکل اسی طرح کام کیا ہے جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے کہ وہ حکومت کی طرف سے قوانین کے ناجائز استعمال اور غیر آئینی پالیسیوں اور احکامات کے خلاف فصیل کا کام کرتی ہیں۔‘‘
ان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’پہلے ہی ہفتے، ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالت میں پہلا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘‘
ACLU کی طرف سے یہ مقدمہ دو عراقی شہریوں کی طرف سے نیویارک کی عدالت میں دائر کیا گیا تھا، جنہیں نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ حکم امتناعی عبوری ہے اور ایک اور عدالت یہ فیصلہ کرے گی کے اسے مستقل حکم کے طور پر جاری کیا جائے یا نہیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر دیا گیا ہے جب امریکا بھر سے ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ سات مسلمان ممالک کے مہاجرین اور قانونی ویزا رکھنے والوں کو امریکا بھر کی ایئرپورٹس پر حراست میں لیا جا رہا ہے اور ان ممالک کے لوگوں کو امریکا جانے والے ہوائی جہازوں پر سوار ہونے سے روکا بھی جا رہا ہے۔
عدالتی حکم کی تعمیل کی جائے گی، امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی
دوسری طرف امریکی محکمہ برائے داخلی سلامتی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’عدالتی فیصلے کی تعمیل کی جائے گی‘‘ مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ ایگزیکٹیو حکم برقرار ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے سات ممالک کے لوگوں کی امریکا میں پابندی کو روک دیا گیا ہے۔
امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرف سے یہ بیان نیویارک کی عدالت کے حکم کے بعد جاری کیا گیا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ان افراد کو معمول سے زیادہ سکیورٹی اسکریننگ سے گزارا جا رہا ہے اور ہمارے امیگریشن قوانین اور عدالتی فیصلے کے مطابق امریکا میں داخلہ دینے کے لیے ان کے کاغذات پر کام کیا جا رہا ہے۔‘‘