امریکی فوج کی واپسی کا منصوبہ، بعض افغان جرنیل پریشان
22 دسمبر 2018افغان فوج کے بعض جرنیلوں کا خیال ہے کہ امریکی فوج کے ممکنہ انخلاء پر عمل درآمد سے افغان فوج کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس وقت بھی افغان فوج کو مختلف سمتوں سے طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ کئی مقامات پر امریکی فوج کی مدد سے افغان فوج کو کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسز‘ کے محقق بِل روگیو کا کہنا ہے کہ اس امریکی فیصلے سے طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کو شروع کرنے پر غور کر سکتے ہیں کیونکہ امریکی فوج کی موجودگی کی صورت میں طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس امریکی فیصلے سے امن بات چیت کا سلسلہ پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق امریکی فوج کے انخلاء سے طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے میں برتری حاصل ہو گی اور وہ کسی حد تک کمزور افغان حکومت سے یہ مطالبہ بھی کر سکتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء تک مذاکرات کو معطل رکھا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ افغان سکیورٹی کا انحصار امریکی فضائی قوت پر ہے۔ اسی امریکی قوت سے افغان سکیورٹی فورسز طالبان اور قدم جماتی ہوئی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، خواہ یہ دفاعی نوعیت ہی کے کیوں نہ ہوں۔ سن 2014 سے افغان سکیورٹی فورسز کی مجموعی صورت حال مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اُس وقت مغربی دفاعی اتحاد کے ہزاروں فوجیوں کا انخلاء ہوا تھا۔ سن 2014 کے بعد سے امریکی اور نیٹو افواج مسلسل افغان سکیورٹی فورسز کا تربیتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسز کے دفاعی تجزیہ کار بِل روگیو کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کی صورت میں طالبان عسکریت پسند فوری طور پر کئی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ طالبان کی اس ممکنہ پیش قدمی سے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے ڈھانچے کا انہدام بھی ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں افغان فوج کے باوردی اہلکار اپنی ملازمتیں چھڑ کر جنگی سرداروں کے جتھوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ روگیو کے مطابق اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ صورت حال یقینی طور پر اقوام عالم اور کابل حکومت کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہو گی۔